title
stringlengths 22
123
| content
stringlengths 70
2.22k
⌀ |
---|---|
be-thikaane-hai-dil-e-gam-ghiin-thikaane-kii-kaho-firaq-gorakhpuri-ghazals |
بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کی کہو
شام ہجراں دوستو کچھ اس کے آنے کی کہو
ہاں نہ پوچھ اک گرفتار قفس کی زندگی
ہم صفیران چمن کچھ آشیانے کی کہو
اڑ گیا ہے منزل دشوار میں غم کا سمند
گیسوئے پر پیچ و خم کے تازیانے کی کہو
بات بنتی اور باتوں سے نظر آتی نہیں
اس نگاہ ناز کی باتیں بنانے کی کہو
داستاں وہ تھی جسے دل بجھتے بجھتے کہہ گیا
شمع بزم زندگی کے جھلملانے کی کہو
کچھ دل مرحوم کی باتیں کرو اے اہل علم
جس سے ویرانے تھے آباد اس دوانے کی کہو
داستان زندگی بھی کس قدر دلچسپ ہے
جو ازل سے چھڑ گیا ہے اس فسانے کی کہو
یہ فسون نیم شب یہ خواب ساماں خامشی
سامری فن آنکھ کے جادو جگانے کی کہو
کوئی کیا کھائے گا یوں سچی قسم جھوٹی قسم
اس نگاہ ناز کی سوگندھ کھانے کی کہو
شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزم سخن
کچھ فراقؔ اپنی سناؤ کچھ زمانے کی کہو |
bahsen-chhidii-huii-hain-hayaat-o-mamaat-kii-firaq-gorakhpuri-ghazals |
بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی
سو بات بن گئی ہے فراقؔ ایک بات کی
ساز نوائے درد حجابات دہر میں
کتنی دکھی ہوئی ہیں رگیں کائنات کی
رکھ لی جنہوں نے کشمکش زندگی کی لاج
بے دردیاں نہ پوچھئے ان سے حیات کی
یوں فرط بے خودی سے محبت میں جان دے
تجھ کو بھی کچھ خبر نہ ہو اس واردات کی
ہے عشق اس تبسم جاں بخش کا شہید
رنگینیاں لئے ہے جو صبح حیات کی
چھیڑا ہے درد عشق نے تار رگ عدم
صورت پکڑ چلی ہیں نوائیں حیات کی
شام ابد کو جلوۂ صبح بہار دے
روداد چھیڑ زندگیٔ بے ثبات کی
اس بزم بے خودی میں وجود عدم کہاں
چلتی نہیں ہے سانس حیات و ممات کی
سو درد اک تبسم پنہاں میں بند ہیں
تصویر ہوں فراقؔ نشاط حیات کی |
aaj-bhii-qaafila-e-ishq-ravaan-hai-ki-jo-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا
پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا
پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا
منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا
یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات
ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا
لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے
آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا
عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا
نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال
دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک
لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا
پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ
شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا
جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم
تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا
آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال
پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ
شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا |
tumhen-kyuunkar-bataaen-zindagii-ko-kyaa-samajhte-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals |
تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں
سمجھ لو سانس لینا خودکشی کرنا سمجھتے ہیں
کسی بدمست کو راز آشنا سب کا سمجھتے ہیں
نگاہ یار تجھ کو کیا بتائیں کیا سمجھتے ہیں
بس اتنے پر ہمیں سب لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں
کہ اس دنیا کو ہم اک دوسری دنیا سمجھتے ہیں
کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
امیدوں میں بھی ان کی ایک شان بے نیازی ہے
ہر آسانی کو جو دشوار ہو جانا سمجھتے ہیں
یہی ضد ہے تو خیر آنکھیں اٹھاتے ہیں ہم اس جانب
مگر اے دل ہم اس میں جان کا کھٹکا سمجھتے ہیں
کہیں ہوں تیرے دیوانے ٹھہر جائیں تو زنداں ہے
جدھر کو منہ اٹھا کر چل پڑے صحرا سمجھتے ہیں
جہاں کی فطرت بیگانہ میں جو کیف غم بھر دیں
وہی جینا سمجھتے ہیں وہی مرنا سمجھتے ہیں
ہمارا ذکر کیا ہم کو تو ہوش آیا محبت میں
مگر ہم قیس کا دیوانہ ہو جانا سمجھتے ہیں
نہ شوخی شوخ ہے اتنی نہ پرکار اتنی پرکاری
نہ جانے لوگ تیری سادگی کو کیا سمجھتے ہیں
بھلا دیں ایک مدت کی جفائیں اس نے یہ کہہ کر
تجھے اپنا سمجھتے تھے تجھے اپنا سمجھتے ہیں
یہ کہہ کر آبلہ پا روندتے جاتے ہیں کانٹوں کو
جسے تلووں میں کر لیں جذب اسے صحرا سمجھتے ہیں
یہ ہستی نیستی سب موج خیزی ہے محبت کی
نہ ہم قطرہ سمجھتے ہیں نہ ہم دریا سمجھتے ہیں
فراقؔ اس گردش ایام سے کب کام نکلا ہے
سحر ہونے کو بھی ہم رات کٹ جانا سمجھتے ہیں |
tez-ehsaas-e-khudii-darkaar-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
تیز احساس خودی درکار ہے
زندگی کو زندگی درکار ہے
جو چڑھا جائے خمستان جہاں
ہاں وہی لب تشنگی درکار ہے
دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام
آدمی کو آدمی درکار ہے
سو گلستاں جس اداسی پر نثار
مجھ کو وہ افسردگی درکار ہے
شاعری ہے سربسر تہذیب قلب
اس کو غم شائستگی درکار ہے
شعلہ میں لاتا ہے جو سوز و گداز
وہ خلوص باطنی درکار ہے
خوبیٔ لفظ و بیاں سے کچھ سوا
شاعری کو ساحری درکار ہے
قادر مطلق کو بھی انسان کی
سنتے ہیں بے چارگی درکار ہے
اور ہوں گے طالب مدح جہاں
مجھ کو بس تیری خوشی درکار ہے
عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی
اک ذرا دیوانگی درکار ہے
ہوش والوں کو بھی میری رائے میں
ایک گونہ بے خودی درکار ہے
خطرۂ بسیار دانی کی قسم
علم میں بھی کچھ کمی درکار ہے
دوستو کافی نہیں چشم خرد
عشق کو بھی روشنی درکار ہے
میری غزلوں میں حقائق ہیں فقط
آپ کو تو شاعری درکار ہے
تیرے پاس آیا ہوں کہنے ایک بات
مجھ کو تیری دوستی درکار ہے
میں جفاؤں کا نہ کرتا یوں گلہ
آج تیری ناخوشی درکار ہے
اس کی زلف آراستہ پیراستہ
اک ذرا سی برہمی درکار ہے
زندہ دل تھا تازہ دم تھا ہجر میں
آج مجھ کو بے دلی درکار ہے
حلقہ حلقہ گیسوئے شب رنگ یار
مجھ کو تیری ابتری درکار ہے
عقل نے کل میرے کانوں میں کہا
مجھ کو تیری زندگی درکار ہے
تیز رو تہذیب عالم کو فراقؔ
اک ذرا آہستگی درکار ہے |
tuur-thaa-kaaba-thaa-dil-thaa-jalva-zaar-e-yaar-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
طور تھا کعبہ تھا دل تھا جلوہ زار یار تھا
عشق سب کچھ تھا مگر پھر عالم اسرار تھا
نشۂ صد جام کیف انتظار یار تھا
ہجر میں ٹھہرا ہوا دل ساغر سرشار تھا
الوداع اے بزم انجم ہجر کی شب الفراق
تا بہ دور زندگانی انتظار یار تھا
ایک ادا سے بے نیاز قرب و دوری کر دیا
ماورائے وصل و ہجراں حسن کا اقرار تھا
جوہر آئینۂ عالم بنے آنسو مرے
یوں تو سچ یہ ہے کہ رونا عشق میں بے کار تھا
شوخئ رفتار وجہ ہستئ برباد تھی
زندگی کیا تھی غبار رہ گزار یار تھا
الفت دیرینہ کا جب ذکر اشاروں میں کیا
مسکرا کر مجھ سے پوچھا تم کو کس سے پیار تھا
دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست
خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا
ذرہ ذرہ آئنہ تھا خود نمائی کا فراقؔ
سر بسر صحرائے عالم جلوہ زار یار تھا |
ik-roz-hue-the-kuchh-ishaaraat-khafii-se-firaq-gorakhpuri-ghazals |
اک روز ہوئے تھے کچھ اشارات خفی سے
عاشق ہیں ہم اس نرگس رعنا کے جبھی سے
کرنے کو ہیں دور آج تو تو یہ روگ ہی جی سے
اب رکھیں گے ہم پیار نہ تم سے نہ کسی سے
احباب سے رکھتا ہوں کچھ امید شرافت
رہتے ہیں خفا مجھ سے بہت لوگ اسی سے
کہتا ہوں اسے میں تو خصوصیت پنہاں
کچھ تم کو شکایت ہے کسی سے تو مجھی سے
اشعار نہیں ہیں یہ مری روح کی ہے پیاس
جاری ہوئے سرچشمے مری تشنہ لبی سے
آنسو کو مرے کھیل تماشا نہ سمجھنا
کٹ جاتا ہے پتھر اسی ہیرے کی کنی سے
یاد لب جاناں ہے چراغ دل رنجور
روشن ہے یہ گھر آج اسی لعل یمنی سے
افلاک کی محراب ہے آئی ہوئی انگڑائی
بے کیف کچھ آفاق کی اعضا شکنی سے
کچھ زیر لب الفاظ کھنکتے ہیں فضا میں
گونجی ہوئی ہے بزم تری کم سخنی سے
آج انجمن عشق نہیں انجمن عشق
کس درجہ کمی بزم میں ہے تیری کمی سے
اس وادئ ویراں میں ہے سر چشمۂ دل بھی
ہستی مری سیراب ہے آنکھوں کی نمی سے
خود مجھ کو بھی تا دیر خبر ہو نہیں پائی
آج آئی تری یاد اس آہستہ روی سے
وہ ڈھونڈھنے نکلی ہے تری نکہت گیسو
اک روز ملا تھا میں نسیم سحری سے
سب کچھ وہ دلا دے مجھے سب کچھ وہ بنا دے
اے دوست نہیں دور تری کم نگہی سے
میعاد دوام و ابد اک نیند ہے اس کی
ہم منتہیٔ جلوۂ جاناں ہیں ابھی سے
اک دل کے سوا پاس ہمارے نہیں کچھ بھی
جو کام ہو لے لیتے ہیں ہم لوگ اسی سے
معلوم ہوا اور ہے اک عالم اسرار
آئینۂ ہستی کی پریشاں نظری سے
اس سے تو کہیں بیٹھ رہے توڑ کے اب پاؤں
مل جائے نجات عشق کو اس در بدری سے
رہتا ہوں فراقؔ اس لئے وارفتہ کہ دنیا
کچھ ہوش میں آ جائے مری بے خبری سے |
zindagii-dard-kii-kahaanii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
زندگی درد کی کہانی ہے
چشم انجم میں بھی تو پانی ہے
بے نیازانہ سن لیا غم دل
مہربانی ہے مہربانی ہے
وہ بھلا میری بات کیا مانے
اس نے اپنی بھی بات مانی ہے
شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز
یا ترا شعلۂ جوانی ہے
وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو
گاہ گل گاہ رات رانی ہے
بن کے معصوم سب کو تاڑ گئی
آنکھ اس کی بڑی سیانی ہے
آپ بیتی کہو کہ جگ بیتی
ہر کہانی مری کہانی ہے
دونوں عالم ہیں جس کے زیر نگیں
دل اسی غم کی راجدھانی ہے
ہم تو خوش ہیں تری جفا پر بھی
بے سبب تیری سرگرانی ہے
سر بہ سر یہ فراز مہر و قمر
تیری اٹھتی ہوئی جوانی ہے
آج بھی سن رہے ہیں قصۂ عشق
گو کہانی بہت پرانی ہے
ضبط کیجے تو دل ہے انگارا
اور اگر روئیے تو پانی ہے
ہے ٹھکانا یہ در ہی اس کا بھی
دل بھی تیرا ہی آستانی ہے
ان سے ایسے میں جو نہ ہو جائے
نو جوانی ہے نو جوانی ہے
دل مرا اور یہ غم دنیا
کیا ترے غم کی پاسبانی ہے
گردش چشم ساقیٔ دوراں
دور افلاک کی بھی پانی ہے
اے لب ناز کیا ہیں وہ اسرار
خامشی جن کی ترجمانی ہے
مے کدوں کے بھی ہوش اڑنے لگے
کیا تری آنکھ کی جوانی ہے
خودکشی پر ہے آج آمادہ
ارے دنیا بڑی دوانی ہے
کوئی اظہار ناخوشی بھی نہیں
بد گمانی سی بد گمانی ہے
مجھ سے کہتا تھا کل فرشتۂ عشق
زندگی ہجر کی کہانی ہے
بحر ہستی بھی جس میں کھو جائے
بوند میں بھی وہ بیکرانی ہے
مل گئے خاک میں ترے عشاق
یہ بھی اک امر آسمانی ہے
زندگی انتظار ہے تیرا
ہم نے اک بات آج جانی ہے
کیوں نہ ہو غم سے ہی قماش اس کا
حسن تصویر شادمانی ہے
سونی دنیا میں اب تو میں ہوں اور
ماتم عشق آنجہانی ہے
کچھ نہ پوچھو فراقؔ عہد شباب
رات ہے نیند ہے کہانی ہے |
sitaaron-se-ulajhtaa-jaa-rahaa-huun-firaq-gorakhpuri-ghazals |
ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں
شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں
ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں
جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں
یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے
گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں
اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ
خبر دو حسن کو میں آ رہا ہوں
حدیں حسن و محبت کی ملا کر
قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں
خبر ہے تجھ کو اے ضبط محبت
ترے ہاتھوں میں لٹتا جا رہا ہوں
اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا
تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں
بھرم تیرے ستم کا کھل چکا ہے
میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں
انہیں میں راز ہیں گلباریوں کے
میں جو چنگاریاں برسا رہا ہوں
جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے
وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں
ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس
کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں
حد جور و کرم سے بڑھ چلا حسن
نگاہ یار کو یاد آ رہا ہوں
جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں
وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں
محبت اب محبت ہو چلی ہے
تجھے کچھ بھولتا سا جا رہا ہوں
اجل بھی جن کو سن کر جھومتی ہے
وہ نغمے زندگی کے گا رہا ہوں
یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ
فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں |
nigaah-e-naaz-ne-parde-uthaae-hain-kyaa-kyaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی
چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
دو چار برق تجلی سے رہنے والوں نے
فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا
دلوں پہ کرتے ہوئے آج آتی جاتی چوٹ
تری نگاہ نے پہلو بچائے ہیں کیا کیا
نثار نرگس مے گوں کہ آج پیمانے
لبوں تک آئے ہوئے تھرتھرائے ہیں کیا کیا
وہ اک ذرا سی جھلک برق کم نگاہی کی
جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا
چراغ طور جلے آئنہ در آئینہ
حجاب برق ادا نے اٹھائے ہیں کیا کیا
بقدر ذوق نظر دید حسن کیا ہو مگر
نگاہ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا
کہیں چراغ کہیں گل کہیں دل برباد
خرام ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا
تغافل اور بڑھا اس غزال رعنا کا
فسون غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا
ہزار فتنۂ بیدار خواب رنگیں میں
چمن میں غنچۂ گل رنگ لائے ہیں کیا کیا
ترے خلوص نہاں کا تو آہ کیا کہنا
سلوک اچٹے بھی دل میں سمائے ہیں کیا کیا
نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے
دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا
پیام حسن پیام جنوں پیام فنا
تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا
تمام حسن کے جلوے تمام محرومی
بھرم نگاہ نے اپنے گنوائے ہیں کیا کیا
فراقؔ راہ وفا میں سبک روی تیری
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا |
kisii-kaa-yuun-to-huaa-kaun-umr-bhar-phir-bhii-firaq-gorakhpuri-ghazals |
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی
کہوں یہ کیسے ادھر دیکھ یا نہ دیکھ ادھر
کہ درد درد ہے پھر بھی نظر نظر پھر بھی
خوشا اشارۂ پیہم زہے سکوت نظر
دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی
جھپک رہی ہیں زمان و مکاں کی بھی آنکھیں
مگر ہے قافلہ آمادۂ سفر پھر بھی
شب فراق سے آگے ہے آج میری نظر
کہ کٹ ہی جائے گی یہ شام بے سحر پھر بھی
کہیں یہی تو نہیں کاشف حیات و ممات
یہ حسن و عشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی
پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ روکش جنت ہو گھر ہے گھر پھر بھی
لٹا ہوا چمن عشق ہے نگاہوں کو
دکھا گیا وہی کیا کیا گل و ثمر پھر بھی
خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور
یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی
ہو بے نیاز اثر بھی کبھی تری مٹی
وہ کیمیا ہی سہی رہ گئی کسر پھر بھی
لپٹ گیا ترا دیوانہ گرچہ منزل سے
اڑی اڑی سی ہے یہ خاک رہ گزر پھر بھی
تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے
اتر گیا رگ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی
غم فراق کے کشتوں کا حشر کیا ہوگا
یہ شام ہجر تو ہو جائے گی سحر پھر بھی
فنا بھی ہو کے گراں باریٔ حیات نہ پوچھ
اٹھائے اٹھ نہیں سکتا یہ درد سر پھر بھی
ستم کے رنگ ہیں ہر التفات پنہاں میں
کرم نما ہیں ترے جور سر بسر پھر بھی
خطا معاف ترا عفو بھی ہے مثل سزا
تری سزا میں ہے اک شان در گزر پھر بھی
اگرچہ بے خودیٔ عشق کو زمانہ ہوا
فراقؔ کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی |
junuun-e-kaargar-hai-aur-main-huun-firaq-gorakhpuri-ghazals |
جنون کارگر ہے اور میں ہوں
حیات بے خبر ہے اور میں ہوں
مٹا کر دل نگاہ اولیں سے
تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں
کہاں میں آ گیا اے زور پرواز
وبال بال و پر ہے اور میں ہوں
نگاہ اولیں سے ہو کے برباد
تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں
مبارک باد ایام اسیری
غم دیوار و در ہے اور میں ہوں
تری جمعیتیں ہیں اور تو ہے
حیات منتشر ہے اور میں ہوں
کوئی ہو سست پیماں بھی تو یوں ہو
یہ شام بے سحر ہے اور میں ہوں
نگاہ بے محابا تیرے صدقے
کئی ٹکڑے جگر ہے اور میں ہوں
ٹھکانا ہے کچھ اس عذر ستم کا
تری نیچی نظر ہے اور میں ہوں
فراقؔ اک ایک حسرت مٹ رہی ہے
یہ ماتم رات بھر ہے اور میں ہوں |
narm-fazaa-kii-karvaten-dil-ko-dukhaa-ke-rah-gaiin-firaq-gorakhpuri-ghazals |
نرم فضا کی کروٹیں دل کو دکھا کے رہ گئیں
ٹھنڈی ہوائیں بھی تری یاد دلا کے رہ گئیں
شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں
مجھ کو خراب کر گئیں نیم نگاہیاں تری
مجھ سے حیات و موت بھی آنکھیں چرا کے رہ گئیں
حسن نظر فریب میں کس کو کلام تھا مگر
تیری ادائیں آج تو دل میں سما کے رہ گئیں
تب کہیں کچھ پتہ چلا صدق و خلوص حسن کا
جب وہ نگاہیں عشق سے باتیں بنا کے رہ گئیں
تیرے خرام ناز سے آج وہاں چمن کھلے
فصلیں بہار کی جہاں خاک اڑا کے رہ گئیں
پوچھ نہ ان نگاہوں کی طرفہ کرشمہ سازیاں
فتنے سلا کے رہ گئیں فتنے جگا کے رہ گئیں
تاروں کی آنکھ بھی بھر آئی میری صدائے درد پر
ان کی نگاہیں بھی ترا نام بتا کے رہ گئیں
اف یہ زمیں کی گردشیں آہ یہ غم کی ٹھوکریں
یہ بھی تو بخت خفتہ کے شانے ہلا کے رہ گئیں
اور تو اہل درد کون سنبھالتا بھلا
ہاں تیری شادمانیاں ان کو رلا کے رہ گئیں
یاد کچھ آئیں اس طرح بھولی ہوئی کہانیاں
کھوے ہوئے دلوں میں آج درد اٹھا کے رہ گئیں
ساز نشاط زندگی آج لرز لرز اٹھا
کس کی نگاہیں عشق کا درد سنا کے رہ گئیں
تم نہیں آئے اور رات رہ گئی راہ دیکھتی
تاروں کی محفلیں بھی آج آنکھیں بچھا کے رہ گئیں
جھوم کے پھر چلیں ہوائیں وجد میں آئیں پھر فضائیں
پھر تری یاد کی گھٹائیں سینوں پہ چھا کے رہ گئیں
قلب و نگاہ کی یہ عید اف یہ مآل قرب و دید
چرخ کی گردشیں تجھے مجھ سے چھپا کے رہ گئیں
پھر ہیں وہی اداسیاں پھر وہی سونی کائنات
اہل طرب کی محفلیں رنگ جما کے رہ گئیں
کون سکون دے سکا غم زدگان عشق کو
بھیگتی راتیں بھی فراقؔ آگ لگا کے رہ گئیں |
mai-kade-men-aaj-ik-duniyaa-ko-izn-e-aam-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
میکدے میں آج اک دنیا کو اذن عام تھا
دور جام بے خودی بیگانۂ ایام تھا
روح لرزاں آنکھ محو دید دل ناکام تھا
عشق کا آغاز بھی شائستۂ انجام تھا
رفتہ رفتہ عشق کو تصویر غم کر ہی دیا
حسن بھی کتنا خراب گردش ایام تھا
غم کدے میں دہر کے یوں تو اندھیرا تھا مگر
عشق کا داغ سیہ بختی چراغ شام تھا
تیری دزدیدہ نگاہی یوں تو نا محسوس تھی
ہاں مگر دفتر کا دفتر حسن کا پیغام تھا
شاق اہل شوق پر تھیں اس کی عصمت داریاں
سچ ہے لیکن حسن در پردہ بہت بد نام تھا
محو تھے گلزار رنگا رنگ کے نقش و نگار
وحشتیں تھی دل کے سناٹے تھے دشت شام تھا
بے خطا تھا حسن ہر جور و جفا کے بعد بھی
عشق کے سر تا ابد الزام ہی الزام تھا
یوں گریباں چاک دنیا میں نہیں ہوتا کوئی
ہر کھلا گلشن شہید گردش ایام تھا
دیکھ حسن شرمگیں در پردہ کیا لایا ہے رنگ
عشق رسوائے جہاں بدنام ہی بدنام تھا
رونق بزم جہاں تھا گو دل غمگیں فراقؔ
سرد تھا افسردہ تھا محروم تھا ناکام تھا |
chhalak-ke-kam-na-ho-aisii-koii-sharaab-nahiin-firaq-gorakhpuri-ghazals |
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں
نگاہ نرگس رعنا ترا جواب نہیں
زمین جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل
وہ رات ہے کوئی ذرہ بھی محو خواب نہیں
حیات درد ہوئی جا رہی ہے کیا ہوگا
اب اس نظر کی دعائیں بھی مستجاب نہیں
زمین اس کی فلک اس کا کائنات اس کی
کچھ ایسا عشق ترا خانماں خراب نہیں
ابھی کچھ اور ہو انسان کا لہو پانی
ابھی حیات کے چہرے پر آب و تاب نہیں
جہاں کے باب میں تر دامنوں کا قول یہ ہے
یہ موج مارتا دریا کوئی سراب نہیں
دکھا تو دیتی ہے بہتر حیات کے سپنے
خراب ہو کے بھی یہ زندگی خراب نہیں |
ye-narm-narm-havaa-jhilmilaa-rahe-hain-charaag-firaq-gorakhpuri-ghazals |
یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ
ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
جھلکتی ہے کھنچی شمشیر میں نئی دنیا
حیات و موت کے ملتے نہیں ہیں آج دماغ
حریف سینۂ مجروح و آتش غم عشق
نہ گل کی چاک گریبانیاں نہ لالے کے داغ
وہ جن کے حال میں لو دے اٹھے غم فردا
وہی ہیں انجمن زندگی کے چشم و چراغ
تمام شعلۂ گل ہے تمام موج بہار
کہ تا حد نگہ شوق لہلہاتے ہیں باغ
نئی زمین نیا آسماں نئی دنیا
سنا تو ہے کہ محبت کو ان دنوں ہے فراغ
جو تہمتیں نہ اٹھیں اک جہاں سے ان کے سمیت
گناہ گار محبت نکل گئے بے داغ
جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے
اسی کے نقش کف پا سے جل اٹھے ہیں چراغ
جہان راز ہوئی جا رہی ہے آنکھ تری
کچھ اس طرح وہ دلوں کا لگا رہی ہے سراغ
زمانہ کود پڑا آگ میں یہی کہہ کر
کہ خون چاٹ کے ہو جائے گی یہ آگ بھی باغ
نگاہیں مطلع نو پر ہیں ایک عالم کی
کہ مل رہا ہے کسی پھوٹتی کرن کا سراغ
دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے
کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ
فراقؔ بزم چراغاں ہے محفل رنداں
سجے ہیں پگھلی ہوئی آگ سے چھلکتے ایاغ |
haath-aae-to-vahii-daaman-e-jaanaan-ho-jaae-firaq-gorakhpuri-ghazals |
ہاتھ آئے تو وہی دامن جاناں ہو جائے
چھوٹ جائے تو وہی اپنا گریباں ہو جائے
عشق اب بھی ہے وہ محرم بیگانہ نما
حسن یوں لاکھ چھپے لاکھ نمایاں ہو جائے
ہوش و غفلت سے بہت دور ہے کیفیت عشق
اس کی ہر بے خبری منزل عرفاں ہو جائے
یاد آتی ہے جب اپنی تو تڑپ جاتا ہوں
میری ہستی ترا بھولا ہوا پیماں ہو جائے
آنکھ وہ ہے جو تری جلوہ گہہ ناز بنے
دل وہی ہے جو سراپا ترا ارماں ہو جائے
پاک بازان محبت میں جو بے باکی ہے
حسن گر اس کو سمجھ لے تو پشیماں ہو جائے
سہل ہو کر ہوئی دشوار محبت تیری
اسے مشکل جو بنا لیں تو کچھ آساں ہو جائے
عشق پھر عشق ہے جس روپ میں جس بھیس میں ہو
عشرت وصل بنے یا غم ہجراں ہو جائے
کچھ مداوا بھی ہو مجروح دلوں کا اے دوست
مرہم زخم ترا جور پشیماں ہو جائے
یہ بھی سچ ہے کوئی الفت میں پریشاں کیوں ہو
یہ بھی سچ ہے کوئی کیوں کر نہ پریشاں ہو جائے
عشق کو عرض تمنا میں بھی لاکھوں پس و پیش
حسن کے واسطے انکار بھی آساں ہو جائے
جھلملاتی ہے سر بزم جہاں شمع خودی
جو یہ بجھ جائے چراغ رہ عرفاں ہو جائے
سر شوریدہ دیا دشت و بیاباں بھی دیے
یہ مری خوبیٔ قسمت کہ وہ زنداں ہو جائے
عقدۂ عشق عجب عقدۂ مہمل ہے فراقؔ
کبھی لاحل کبھی مشکل کبھی آساں ہو جائے |
ras-men-duubaa-huaa-lahraataa-badan-kyaa-kahnaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
کروٹیں لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا
نگہ ناز میں یہ پچھلے پہر رنگ خمار
نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا
باغ جنت پہ گھٹا جیسے برس کے کھل جائے
یہ سہانی تری خوشبوئے بدن کیا کہنا
ٹھہری ٹھہری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن
چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن کیا کہنا
روپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ
تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا
جیسے لہرائے کوئی شعلہ کمر کی یہ لچک
سر بسر آتش سیال بدن کیا کہنا
جس طرح جلوۂ فردوس ہواؤں سے چھنے
پیرہن میں ترے رنگینیٔ تن کیا کہنا
جلوہ و پردے کا یہ رنگ دم نظارہ
جس طرح ادھ کھلے گھونگھٹ میں دلہن کیا کہنا
دم تقریر کھل اٹھتے ہیں گلستاں کیا کیا
یوں تو اک غنچۂ نورس ہے دہن کیا کہنا
دل کے آئینے میں اس طرح اترتی ہے نگاہ
جیسے پانی میں لچک جائے کرن کیا کہنا
لہلہاتا ہوا یہ قد یہ لہکتا جوبن
زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا
تو محبت کا ستارہ تو جوانی کا سہاگ
حسن لو دیتا ہے لعل یمن کیا کہنا
تیری آواز سویرا تری باتیں تڑکا
آنکھیں کھل جاتی ہیں اعجاز سخن کیا کہنا
زلف شب گوں کی چمک پیکر سیمیں کی دمک
دیپ مالا ہے سر گنگ و جمن کیا کہنا
نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جوت
جیسے چھنتی ہو ستاروں کی کرن کیا کہنا |
vaqt-e-guruub-aaj-karaamaat-ho-gaii-firaq-gorakhpuri-ghazals |
وقت غروب آج کرامات ہو گئی
زلفوں کو اس نے کھول دیا رات ہو گئی
کل تک تو اس میں ایسی کرامت نہ تھی کوئی
وہ آنکھ آج قبلۂ حاجات ہو گئی
اے سوز عشق تو نے مجھے کیا بنا دیا
میری ہر ایک سانس مناجات ہو گئی
اوچھی نگاہ ڈال کے اک سمت رکھ دیا
دل کیا دیا غریب کی سوغات ہو گئی
کچھ یاد آ گئی تھی وہ زلف شکن شکن
ہستی تمام چشمۂ ظلمات ہو گئی
اہل وطن سے دور جدائی میں یار کی
صبر آ گیا فراقؔ کرامات ہو گئی |
ab-aksar-chup-chup-se-rahen-hain-yuunhii-kabhuu-lab-kholen-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals |
اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں
پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں
دن میں ہم کو دیکھنے والو اپنے اپنے ہیں اوقات
جاؤ نہ تم ان خشک آنکھوں پر ہم راتوں کو رو لیں ہیں
فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی
کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہو لیں ہیں
خنک سیہ مہکے ہوئے سائے پھیل جائیں ہیں جل تھل پر
کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولیں ہیں
باغ میں وہ خواب آور عالم موج صبا کے اشاروں پر
ڈالی ڈالی نورس پتے سہج سہج جب ڈولیں ہیں
اف وہ لبوں پر موج تبسم جیسے کروٹیں لیں کوندے
ہائے وہ عالم جنبش مژگاں جب فتنے پر تولیں ہیں
نقش و نگار غزل میں جو تم یہ شادابی پاؤ ہو
ہم اشکوں میں کائنات کے نوک قلم کو ڈبو لیں ہیں
ان راتوں کو حریم ناز کا اک عالم ہوئے ہے ندیم
خلوت میں وہ نرم انگلیاں بند قبا جب کھولیں ہیں
غم کا فسانہ سننے والو آخر شب آرام کرو
کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے ہم بھی ذرا اب سو لیں ہیں
ہم لوگ اب تو اجنبی سے ہیں کچھ تو بتاؤ حال فراقؔ
اب تو تمہیں کو پیار کریں ہیں اب تو تمہیں سے بولیں ہیں |
mujh-ko-maaraa-hai-har-ik-dard-o-davaa-se-pahle-firaq-gorakhpuri-ghazals |
مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے
دی سزا عشق نے ہر جرم و خطا سے پہلے
آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے
ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے
فتنے برپا ہوئے ہر غنچۂ سربستہ سے
کھل گیا راز چمن چاک قبا سے پہلے
چال ہے بادۂ ہستی کا چھلکتا ہوا جام
ہم کہاں تھے ترے نقش کف پا سے پہلے
اب کمی کیا ہے ترے بے سر و سامانوں کو
کچھ نہ تھا تیری قسم ترک وفا سے پہلے
عشق بے باک کو دعوے تھے بہت خلوت میں
کھو دیا سارا بھرم شرم و حیا سے پہلے
خود بخود چاک ہوئے پیرہن لالہ و گل
چل گئی کون ہوا باد صبا سے پہلے
ہم سفر راہ عدم میں نہ ہو تاروں بھری رات
ہم پہنچ جائیں گے اس آبلہ پا سے پہلے
پردۂ شرم میں صد برق تبسم کے نثار
ہوش جاتے رہے نیرنگ حیا سے پہلے
موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوق حیات
تو نے تو مار ہی ڈالا تھا قضا سے پہلے
بے تکلف بھی ترا حسن خود آرا تھا کبھی
اک ادا اور بھی تھی حسن ادا سے پہلے
غفلتیں ہستئ فانی کی بتا دیں گی تجھے
جو مرا حال تھا احساس فنا سے پہلے
ہم انہیں پا کے فراقؔ اور بھی کچھ کھوئے گئے
یہ تکلف تو نہ تھے عہد وفا سے پہلے |
aankhon-men-jo-baat-ho-gaii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرح حیات ہو گئی ہے
جب دل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے
غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے
مدت سے خبر ملی نہ دل کی
شاید کوئی بات ہو گئی ہے
جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری
تصویر حیات ہو گئی ہے
اب ہو مجھے دیکھیے کہاں صبح
ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے
دل میں تجھ سے تھی جو شکایت
اب غم کے نکات ہو گئی ہے
اقرار گناہ عشق سن لو
مجھ سے اک بات ہو گئی ہے
جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی
تیری سوغات ہو گئی ہے
کیا جانیے موت پہلے کیا تھی
اب میری حیات ہو گئی ہے
گھٹتے گھٹتے تری عنایت
میری اوقات ہو گئی ہے
اس چشم سیہ کی یاد یکسر
شام ظلمات ہو گئی ہے
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
جیتی ہوئی بازیٔ محبت
کھیلا ہوں تو مات ہو گئی ہے
مٹنے لگیں زندگی کی قدریں
جب غم سے نجات ہو گئی ہے
وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے
جب آئے ہیں رات ہو گئی ہے
دنیا ہے کتنی بے ٹھکانہ
عاشق کی برات ہو گئی ہے
پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی
اب برق صفات ہو گئی ہے
جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے
اک برگ نبات ہو گئی ہے
اکا دکا صدائے زنجیر
زنداں میں رات ہو گئی ہے
ایک ایک صفت فراقؔ اس کی
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے |
ye-nikhaton-kii-narm-ravii-ye-havaa-ye-raat-firaq-gorakhpuri-ghazals |
یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات
یاد آ رہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات
مایوسیوں کی گود میں دم توڑتا ہے عشق
اب بھی کوئی بنا لے تو بگڑی نہیں ہے بات
کچھ اور بھی تو ہو ان اشارات کے سوا
یہ سب تو اے نگاہ کرم بات بات بات
اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات
ہم اہل انتظار کے آہٹ پہ کان تھے
ٹھنڈی ہوا تھی غم تھا ترا ڈھل چلی تھی رات
یوں تو بچی بچی سی اٹھی وہ نگاہ ناز
دنیائے دل میں ہو ہی گئی کوئی واردات
جن کا سراغ پا نہ سکی غم کی روح بھی
ناداں ہوئے ہیں عشق میں ایسے بھی سانحات
ہر سعی و ہر عمل میں محبت کا ہاتھ ہے
تعمیر زندگی کے سمجھ کچھ محرکات
اس جا تری نگاہ مجھے لے گئی جہاں
لیتی ہو جیسے سانس یہ بے جان کائنات
کیا نیند آئے اس کو جسے جاگنا نہ آئے
جو دن کو دن کرے وہ کرے رات کو بھی رات
دریا کے مد و جزر بھی پانی کے کھیل ہیں
ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات
اہل رضا میں شان بغاوت بھی ہو ذرا
اتنی بھی زندگی نہ ہو پابند رسمیات
ہم اہل غم نے رنگ زمانہ بدل دیا
کوشش تو کی سبھی نے مگر بن پڑے کی بات
پیدا کرے زمین نئی آسماں نیا
اتنا تو لے کوئی اثر دور کائنات
شاعر ہوں گہری نیند میں ہیں جو حقیقتیں
چونکا رہے ہیں ان کو بھی میرے توہمات
مجھ کو تو غم نے فرصت غم بھی نہ دی فراقؔ
دے فرصت حیات نہ جیسے غم حیات |
aaii-hai-kuchh-na-puuchh-qayaamat-kahaan-kahaan-firaq-gorakhpuri-ghazals |
آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں
اف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں
بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام
بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں
فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے
تیرا اثر ہے اے غم فرقت کہاں کہاں
ہر جنبش نگاہ میں صد کیف بے خودی
بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں
راہ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی
پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں
دل کے افق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری
لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں
اے نرگس سیاہ بتا دے ترے نثار
کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں
نیرنگ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ
یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں
بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز
در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں
فرق آ گیا تھا دور حیات و ممات میں
آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں
جیسے فنا بقا میں بھی کوئی کمی سی ہو
مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں
دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی
تیرے لئے اٹھائی ندامت کہاں کہاں
اب امتیاز عشق و ہوس بھی نہیں رہا
ہوتی ہے تیری چشم عنایت کہاں کہاں
ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی
اس راہ میں کھلے در رحمت کہاں کہاں
ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ
ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں |
kuchh-na-kuchh-ishq-kii-taasiir-kaa-iqraar-to-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے
اس کا الزام تغافل پہ کچھ انکار تو ہے
ہر فریب غم دنیا سے خبردار تو ہے
تیرا دیوانہ کسی کام میں ہشیار تو ہے
دیکھ لیتے ہیں سبھی کچھ ترے مشتاق جمال
خیر دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے
معرکے سر ہوں اسی برق نظر سے اے حسن
یہ چمکتی ہوئی چلتی ہوئی تلوار تو ہے
سر پٹکنے کو پٹکتا ہے مگر رک رک کر
تیرے وحشی کو خیال در و دیوار تو ہے
عشق کا شکوۂ بے جا بھی نہ بے کار گیا
نہ سہی جور مگر جور کا اقرار تو ہے
تجھ سے ہمت تو پڑی عشق کو کچھ کہنے کی
خیر شکوہ نہ سہی شکر کا اظہار تو ہے
اس میں بھی رابطۂ خاص کی ملتی ہے جھلک
خیر اقرار محبت نہ ہو انکار تو ہے
کیوں جھپک جاتی ہے رہ رہ کے تری برق نگاہ
یہ جھجک کس لئے اک کشتۂ دیدار تو ہے
کئی عنوان ہیں ممنون کرم کرنے کے
عشق میں کچھ نہ سہی زندگی بیکار تو ہے
سحر و شام سر انجمن ناز نہ ہو
جلوۂ حسن تو ہے عشق سیہ کار تو ہے
چونک اٹھتے ہیں فراقؔ آتے ہی اس شوخ کا نام
کچھ سراسیمگیٔ عشق کا اقرار تو ہے |
rukii-rukii-sii-shab-e-marg-khatm-par-aaii-firaq-gorakhpuri-ghazals-1 |
رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی
وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی
یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ
مسافروں سے کہو اس کی رہ گزر آئی
فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی
کہیں زمان و مکاں میں ہے نام کو بھی سکوں
مگر یہ بات محبت کی بات پر آئی
کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی
امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی
کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا
کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی
دلوں میں آج تری یاد مدتوں کے بعد
بہ چہرۂ متبسم بہ چشم تر آئی
نیا نہیں ہے مجھے مرگ ناگہاں کا پیام
ہزار رنگ سے اپنی مجھے خبر آئی
فضا کو جیسے کوئی راگ چیرتا جائے
تری نگاہ دلوں میں یوں ہی اتر آئی
ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
ترا ہی عکس سرشک غم زمانہ میں تھا
نگاہ میں تری تصویر سی اتر آئی
عجب نہیں کہ چمن در چمن بنے ہر پھول
کلی کلی کی صبا جا کے گود بھر آئی
شب فراقؔ اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد
کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھر آئی |
bahut-pahle-se-un-qadmon-kii-aahat-jaan-lete-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals |
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی
اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں
نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا
تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں
طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں
حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے
وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں
ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی
مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں
تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت
کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں
اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں
خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں
جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا
عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے
تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں
رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے
ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں
زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے
اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں
فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر
کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں |
har-naala-tire-dard-se-ab-aur-hii-kuchh-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
ہر نالہ ترے درد سے اب اور ہی کچھ ہے
ہر نغمہ سر بزم طرب اور ہی کچھ ہے
ارباب وفا جان بھی دینے کو ہیں تیار
ہستی کا مگر حسن طلب اور ہی کچھ ہے
یہ کام نہ لے نالہ و فریاد و فغاں سے
افلاک الٹ دینے کا ڈھب اور ہی کچھ ہے
اک سلسلۂ راز ہے جینا کہ ہو مرنا
جب اور ہی کچھ تھا مگر اب اور ہی کچھ ہے
کچھ مہر قیامت ہے نہ کچھ نار جہنم
ہشیار کہ وہ قہر و غضب اور ہی کچھ ہے
مذہب کی خرابی ہے نہ اخلاق کی پستی
دنیا کے مصائب کا سبب اور ہی کچھ ہے
بیہودہ سری سجدے میں ہے جان کھپانا
آئین محبت میں ادب اور ہی کچھ ہے
کیا حسن کے انداز تغافل کی شکایت
پیمان وفا عشق کا جب اور ہی کچھ ہے
دنیا کو جگا دے جو عدم کو بھی سلا دے
سنتے ہیں کہ وہ روز وہ شب اور ہی کچھ ہے
آنکھوں نے فراقؔ آج نہ پوچھو جو دکھایا
جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب اور ہی کچھ ہے |
chhed-ai-dil-ye-kisii-shokh-ke-rukhsaaron-se-firaq-gorakhpuri-ghazals |
چھیڑ اے دل یہ کسی شوخ کے رخساروں سے
کھیلنا آہ دہکتے ہوئے انگاروں سے
ہم شب ہجر میں جب سوتی ہے ساری دنیا
ذکر کرتے ہیں ترا چھٹکے ہوئے تاروں سے
اشک بھر لائے کسی نے جو ترا نام لیا
اور کیا ہجر میں ہوتا ترے بیماروں سے
چھیڑ نغمہ کوئی گو دل کی شکستہ ہیں رگیں
ہم نکالیں گے صدا ٹوٹے ہوئے تاروں سے
ہم کو تیری ہے ضرورت نہ اسے بھول اے دوست
تیرے اقراروں سے مطلب ہے نہ انکاروں سے
ہم ہیں وہ بیکس و بے یار کہ بیٹھے بیٹھے
اپنا دکھ درد کہا کرتے ہیں دیواروں سے
اہل دنیا سے یہ کہتے ہیں مرے نالۂ دل
ہم صدا دیں گے غم ہجر کے میناروں سے
عشق ہمدردیٔ عالم کا روادار نہیں
ہو گئی بھول فراقؔ آپ کے غم خواروں سے |
zamiin-badlii-falak-badlaa-mazaaq-e-zindagii-badlaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا
تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا
خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا
حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا
نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا
رموز بے خودی بدلے تقاضائے خودی بدلا
بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں
نہیں بدلی ابھی دنیا تو دنیا کو ابھی بدلا
نئی منزل کے میر کارواں بھی اور ہوتے ہیں
پرانے خضر رہ بدلے وہ طرز رہبری بدلا
کبھی سوچا بھی ہے اے نظم کہنہ کے خداوندو
تمہارا حشر کیا ہوگا جو یہ عالم کبھی بدلا
ادھر پچھلے سے اہل مال و زر پر رات بھاری ہے
ادھر بیداری جمہور کا انداز بھی بدلا
زہے سوز غم آدم خوشا ساز دل آدم
اسی اک شمع کی لو نے جہان تیرگی بدلا
نئے منصور ہیں صدیوں پرانے شیخ و قاضی ہیں
نہ فتوے کفر کے بدلے نہ عذر دار ہی بدلا
بتائے تو بتائے اس کو تیری شوخئ پنہاں
تری چشم توجہ ہے کہ طرز بے رخی بدلا
بہ فیض آدم خاکی زمیں سونا اگلتی ہے
اسی ذرے نے دور مہر و ماہ و مشتری بدلا
ستارے جاگتے ہیں رات لٹ چھٹکائے سوتی ہے
دبے پاؤں کسی نے آ کے خواب زندگی بدلا
فراقؔ ہمنوائے میرؔ و غالبؔ اب نئے نغمے
وہ بزم زندگی بدلی وہ رنگ شاعری بدلا |
dete-hain-jaam-e-shahaadat-mujhe-maaluum-na-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا
ہے یہ آئین محبت مجھے معلوم نہ تھا
مطلب چشم مروت مجھے معلوم نہ تھا
تجھ کو مجھ سے تھی شکایت مجھے معلوم نہ تھا
چشم خاموش کی بابت مجھے معلوم نہ تھا
یہ بھی ہے حرف و حکایت مجھے معلوم نہ تھا
عشق بس میں ہے مشیت کے عقیدہ تھا مرا
اس کے بس میں ہے مشیت مجھے معلوم نہ تھا
ہفت خواں جس نے کئے طے سر راہ تسلیم
ٹوٹ جاتی ہے وہ ہمت مجھے معلوم نہ تھا
آج ہر قطرۂ مے بن گیا اک چنگاری
تھی یہ ساقی کی شرارت مجھے معلوم نہ تھا
نگہ مست نے تلوار اٹھا لی سر بزم
یوں بدل جاتی ہے نیت مجھے معلوم نہ تھا
غم ہستی سے جو بیزار رہا میں اک عمر
تجھ سے بھی تھی اسے نسبت مجھے معلوم نہ تھا
عشق بھی اہل طریقت میں ہے ایسا تھا خیال
عشق ہے پیر طریقت مجھے معلوم نہ تھا
پوچھ مت شرح کرم ہائے عزیزاں ہمدم
ان میں اتنی تھی شرافت مجھے معلوم نہ تھا
جب سے دیکھا ہے تجھے مجھ سے ہے میری ان بن
حسن کا رنگ سیاست مجھے معلوم نہ تھا
شکل انسان کی ہو چال بھی انسان کی ہو
یوں بھی آتی ہے قیامت مجھے معلوم نہ تھا
سر معمورۂ عالم یہ دل خانہ خراب
مٹ گیا تیری بدولت مجھے معلوم نہ تھا
پردۂ عرض وفا میں بھی رہا ہوں کرتا
تجھ سے میں اپنی ہی غیبت مجھے معلوم نہ تھا
نقد جاں کیا ہے زمانے میں محبت ہمدم
نہیں ملتی کسی قیمت مجھے معلوم نہ تھا
ہو گیا آج رفیقوں سے گلے مل کے جدا
اپنا خود عشق صداقت مجھے معلوم نہ تھا
درد دل کیا ہے کھلا آج ترے لڑنے پر
تجھ سے اتنی تھی محبت مجھے معلوم نہ تھا
دم نکل جائے مگر دل نہ لگائے کوئی
عشق کی یہ تھی وصیت مجھے معلوم نہ تھا
حسن والوں کو بہت سہل سمجھ رکھا تھا
تجھ پہ آئے گی طبیعت مجھے معلوم نہ تھا
کتنی خلاق ہے یہ نیستئ عشق فراقؔ
اس سے ہستی ہے عبارت مجھے معلوم نہ تھا |
gam-tiraa-jalva-gah-e-kaun-o-makaan-hai-ki-jo-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
غم ترا جلوہ گہہ کون و مکاں ہے کہ جو تھا
یعنی انسان وہی شعلہ بجاں ہے کہ جو تھا
پھر وہی رنگ تکلم نگہ ناز میں ہے
وہی انداز وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
کب ہے انکار ترے لطف و کرم سے لیکن
تو وہی دشمن دل دشمن جاں ہے کہ جو تھا
عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت
وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا
قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن
آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا
نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال
دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا
جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی
پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
حسن کو کھینچ تو لیتا ہے ابھی تک لیکن
وہ اثر جذب محبت میں کہاں ہے کہ جو تھا
آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک
لئے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا
پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات
وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا
پھر سر میکدۂ عشق ہے اک بارش نور
چھلکے جاموں سے چراغاں کا سماں ہے کہ جو تھا
پھر وہی خیر نگاہی ہے ترے جلووں سے
وہی عالم ترا اے برق دماں ہے کہ جو تھا
آج بھی آگ دبی ہے دل انساں میں فراقؔ
آج بھی سینوں سے اٹھتا وہ دھواں ہے کہ جو تھا |
apne-gam-kaa-mujhe-kahaan-gam-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
اپنے غم کا مجھے کہاں غم ہے
اے کہ تیری خوشی مقدم ہے
آگ میں جو پڑا وہ آگ ہوا
حسن سوز نہاں مجسم ہے
اس کے شیطان کو کہاں توفیق
عشق کرنا گناہ آدم ہے
دل کے دھڑکوں میں زور ضرب کلیم
کس قدر اس حباب میں دم ہے
ہے وہی عشق زندہ و جاوید
جسے آب حیات بھی سم ہے
اس میں ٹھہراؤ یا سکون کہاں
زندگی انقلاب پیہم ہے
اک تڑپ موج تہ نشیں کی طرح
زندگی کی بنائے محکم ہے
رہتی دنیا میں عشق کی دنیا
نئے عنوان سے منظم ہے
اٹھنے والی ہے بزم ماضی کی
روشنی کم ہے زندگی کم ہے
یہ بھی نظم حیات ہے کوئی
زندگی زندگی کا ماتم ہے
اک معمہ ہے زندگی اے دوست
یہ بھی تیری ادائے مبہم ہے
اے محبت تو اک عذاب سہی
زندگی بے ترے جہنم ہے
اک تلاطم سا رنگ و نکہت کا
پیکر ناز میں دما دم ہے
پھرنے کو ہے رسیلی نیم نگاہ
آہوئے ناز مائل رم ہے
روپ کے جوت زیر پیراہن
گلستاں پر ردائے شبنم ہے
میرے سینے سے لگ کے سو جاؤ
پلکیں بھاری ہیں رات بھی کم ہے
آہ یہ مہربانیاں تیری
شادمانی کی آنکھ پر نم ہے
نرم و دوشیزہ کس قدر ہے نگاہ
ہر نظر داستان مریم ہے
مہر و مہ شعلہ ہائے ساز جمال
جس کی جھنکار اتنی مدھم ہے
جیسے اچھلے جنوں کی پہلی شام
اس ادا سے وہ زلف برہم ہے
یوں بھی دل میں نہیں وہ پہلی امنگ
اور تیری نگاہ بھی کم ہے
اور کیوں چھیڑتی ہے گردش چرخ
وہ نظر پھر گئی یہ کیا کم ہے
روکش صد حریم دل ہے فضا
وہ جہاں ہیں عجیب عالم ہے
دئے جاتی ہے لو صدائے فراقؔ
ہاں وہی سوز و ساز کم کم ہے |
vo-chup-chaap-aansuu-bahaane-kii-raaten-firaq-gorakhpuri-ghazals |
وہ چپ چاپ آنسو بہانے کی راتیں
وہ اک شخص کے یاد آنے کی راتیں
شب مہ کی وہ ٹھنڈی آنچیں وہ شبنم
ترے حسن کے رسمسانے کی راتیں
جوانی کی دوشیزگی کا تبسم
گل زار کے وہ کھلانے کی راتیں
پھواریں سی نغموں کی پڑتی ہوں جیسے
کچھ اس لب کے سننے سنانے کی راتیں
مجھے یاد ہے تیری ہر صبح رخصت
مجھے یاد ہیں تیرے آنے کی راتیں
پر اسرار سی میری عرض تمنا
وہ کچھ زیر لب مسکرانے کی راتیں
سر شام سے رتجگا کے وہ ساماں
وہ پچھلے پہر نیند آنے کی راتیں
سر شام سے تا سحر قرب جاناں
نہ جانے وہ تھیں کس زمانے کی راتیں
سر میکدہ تشنگی کی وہ قسمیں
وہ ساقی سے باتیں بنانے کی راتیں
ہم آغوشیاں شاہد مہرباں کی
زمانے کے غم بھول جانے کی راتیں
فراقؔ اپنی قسمت میں شاید نہیں تھے
ٹھکانے کے دن یا ٹھکانے کی راتیں |
samajhtaa-huun-ki-tuu-mujh-se-judaa-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
سمجھتا ہوں کہ تو مجھ سے جدا ہے
شب فرقت مجھے کیا ہو گیا ہے
ترا غم کیا ہے بس یہ جانتا ہوں
کہ میری زندگی مجھ سے خفا ہے
کبھی خوش کر گئی مجھ کو تری یاد
کبھی آنکھوں میں آنسو آ گیا ہے
حجابوں کو سمجھ بیٹھا میں جلوہ
نگاہوں کو بڑا دھوکا ہوا ہے
بہت دور اب ہے دل سے یاد تیری
محبت کا زمانہ آ رہا ہے
نہ جی خوش کر سکا تیرا کرم بھی
محبت کو بڑا دھوکا رہا ہے
کبھی تڑپا گیا ہے دل ترا غم
کبھی دل کو سہارا دے گیا ہے
شکایت تیری دل سے کرتے کرتے
اچانک پیار تجھ پر آ گیا ہے
جسے چونکا کے تو نے پھیر لی آنکھ
وہ تیرا درد اب تک جاگتا ہے
جہاں ہے موجزن رنگینئ حسن
وہیں دل کا کنول لہرا رہا ہے
گلابی ہوتی جاتی ہیں فضائیں
کوئی اس رنگ سے شرما رہا ہے
محبت تجھ سے تھی قبل از محبت
کچھ ایسا یاد مجھ کو آ رہا ہے
جدا آغاز سے انجام سے دور
محبت اک مسلسل ماجرا ہے
خدا حافظ مگر اب زندگی میں
فقط اپنا سہارا رہ گیا ہے
محبت میں فراقؔ اتنا نہ غم کر
زمانے میں یہی ہوتا رہا ہے |
diidaar-men-ik-tarfa-diidaar-nazar-aayaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
دیدار میں اک طرفہ دیدار نظر آیا
ہر بار چھپا کوئی ہر بار نظر آیا
چھالوں کو بیاباں بھی گلزار نظر آیا
جب چھیڑ پر آمادہ ہر خار نظر آیا
صبح شب ہجراں کی وہ چاک گریبانی
اک عالم نیرنگی ہر تار نظر آیا
ہو صبر کہ بیتابی امید کہ مایوسی
نیرنگ محبت بھی بیکار نظر آیا
جب چشم سیہ تیری تھی چھائی ہوئی دل پر
اس ملک کا ہر خطہ تاتار نظر آیا
تو نے بھی تو دیکھی تھی وہ جاتی ہوئی دنیا
کیا آخری لمحوں میں بیمار نظر آیا
غش کھا کے گرے موسیٰ اللہ ری مایوسی
ہلکا سا وہ پردہ بھی دیوار نظر آیا
ذرہ ہو کہ قطرہ ہو خم خانہ ہستی میں
مخمور نظر آیا سرشار نظر آیا
کیا کچھ نہ ہوا غم سے کیا کچھ نہ کیا غم نے
اور یوں تو ہوا جو کچھ بے کار نظر آیا
اے عشق قسم تجھ کو معمورۂ عالم کی
کوئی غم فرقت میں غم خوار نظر آیا
شب کٹ گئی فرقت کی دیکھا نہ فراقؔ آخر
طول غم ہجراں بھی بے کار نظر آیا |
jahaan-e-guncha-e-dil-kaa-faqat-chataknaa-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
جہان غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا
اسی کی بوئے پریشاں وجود دنیا تھا
یہ کہہ کے کل کوئی بے اختیار روتا تھا
وہ اک نگاہ سہی کیوں کسی کو دیکھا تھا
طنابیں کوچۂ قاتل کی کھنچتی جاتی تھیں
شہید تیغ ادا میں بھی زور کتنا تھا
بس اک جھلک نظر آئی اڑے کلیم کے ہوش
بس اک نگاہ ہوئی خاک طور سینا تھا
ہر اک کے ہاتھ فقط غفلتیں تھیں ہوش نما
کہ اپنے آپ سے بیگانہ وار جینا تھا
یہی ہوا کہ فریب امید و یاس مٹے
وہ پا گئے ترے ہاتھوں ہمیں جو پانا تھا
چمن میں غنچۂ گل کھلکھلا کے مرجھائے
یہی وہ تھے جنہیں ہنس ہنس کے جان دینا تھا
نگاہ مہر میں جس کی ہیں صد پیام فنا
اسی کا عالم ایجاد و ناز بے جا تھا
جہاں تو جلوہ نما تھا لرزتی تھی دنیا
ترے جمال سے کیسا جلال پیدا تھا
حیات و مرگ کے کچھ راز کھل گئے ہوں گے
فسانۂ شب غم ورنہ دوستو کیا تھا
شب عدم کا فسانہ گداز شمع حیات
سوائے کیف فنا میرا ماجرا کیا تھا
کچھ ایسی بات نہ تھی تیرا دور ہو جانا
یہ اور بات کہ رہ رہ کے درد اٹھتا تھا
نہ پوچھ سود و زیاں کاروبار الفت کے
وگرنہ یوں تو نہ پانا تھا کچھ نہ کھوتا تھا
لگاوٹیں وہ ترے حسن بے نیاز کی آہ
میں تیری بزم سے جب ناامید اٹھا تھا
تجھے ہم اے دل درد آشنا کہاں ڈھونڈیں
ہم اپنے ہوش میں کب تھے کوئی جب اٹھا تھا
عدم کا راز صدائے شکست ساز حیات
حجاب زیست بھی کتنا لطیف پردا تھا
یہ اضطراب و سکوں بھی تھی اک فریب حیات
کہ اپنے حال سے بیگانہ وار جینا تھا
کہاں پہ چوک ہوئی تیرے بے قراروں سے
زمانہ دوسری کروٹ بدلنے والا تھا
یہ کوئی یاد ہے یہ بھی ہے کوئی محویت
ترے خیال میں تجھ کو بھی بھول جانا تھا
کہاں کی چوٹ ابھر آئی حسن تاباں میں
دم نظارہ وہ رخ درد سا چمکتا تھا
نہ پوچھ رمز و کنایات چشم ساقی کے
بس ایک حشر خموش انجمن میں برپا تھا
چمن چمن تھی گل داغ عشق سے ہستی
اسی کی نکہت برباد کا زمانہ تھا
وہ تھا مرا دل خوں گشتہ جس کے مٹنے سے
بہار باغ جناں تھی وجود دنیا تھا
قسم ہے بادہ کشو چشم مست ساقی کی
بتاؤ ہاتھ سے کیا جام مے سنبھلتا تھا
وصال اس سے میں چاہوں کہاں یہ دل میرا
یہ رو رہا ہوں کہ کیوں اس کو میں نے دیکھا تھا
امید یاس بنی یاس پھر امید بنی
اس اک نظر میں فریب نگاہ کتنا تھا
یہ سوز و ساز نہاں تھا وہ سوز و ساز عیاں
وصال و ہجر میں بس فرق تھا تو اتنا تھا
شکست ساز چمن تھی بہار لالہ و گل
خزاں مچلتی تھی غنچہ جہاں چٹکتا تھا
ہر ایک سانس ہے تجدید یاد ایامے
گزر گیا وہ زمانہ جسے گزرنا تھا
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
کسی کے صبر نے بے صبر دیا سب کو
فراقؔ نزع میں کروٹ کوئی بدلتا تھا |
daur-e-aagaaz-e-jafaa-dil-kaa-sahaaraa-niklaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
دور آغاز جفا دل کا سہارا نکلا
حوصلہ کچھ نہ ہمارا نہ تمہارا نکلا
تیرا نام آتے ہی سکتے کا تھا عالم مجھ پر
جانے کس طرح یہ مذکور دوبارا نکلا
ہوش جاتا ہے جگر جاتا ہے دل جاتا ہے
پردے ہی پردے میں کیا تیرا اشارا نکلا
ہے ترے کشف و کرامات کی دنیا قائل
تجھ سے اے دل نہ مگر کام ہمارا نکلا
کتنے سفاک سر قتل گہہ عالم تھے
لاکھوں میں بس وہی اللہ کا پیارا نکلا
عبرت انگیز ہے کیا اس کی جواں مرگی بھی
ہائے وہ دل جو ہمارا نہ تمہارا نکلا
عشق کی لو سے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں
رشک خورشید قیامت یہ شرارا نکلا
سر بہ سر بے سر و ساماں جسے سمجھے تھے وہ دل
رشک جمشید و کے و خسرو و دارا نکلا
رونے والے ہوئے چپ ہجر کی دنیا بدلی
شمع بے نور ہوئی صبح کا تارا نکلا
انگلیاں اٹھیں فراقؔ وطن آوارہ پر
آج جس سمت سے وہ درد کا مارا نکلا |
ab-daur-e-aasmaan-hai-na-daur-e-hayaat-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے
ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے
حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے
جینا جو آ گیا تو اجل بھی حیات ہے
اور یوں تو عمر خضر بھی کیا بے ثبات ہے
کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی
خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے
ہستی کو جس نے زلزلہ ساماں بنا دیا
وہ دل قرار پائے مقدر کی بات ہے
یہ موشگافیاں ہیں گراں طبع عشق پر
کس کو دماغ کاوش ذات و صفات ہے
توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
زندان عقل تیری تو کیا کائنات ہے
گردوں شرار برق دل بے قرار دیکھ
جن سے یہ تیری تاروں بھری رات رات ہے
گم ہو کے ہر جگہ ہیں زخود رفتگان عشق
ان کی بھی اہل کشف و کرامات ذات ہے
ہستی بجز فنائے مسلسل کے کچھ نہیں
پھر کس لیے یہ فکر قرار و ثبات ہے
اس جان دوستی کا خلوص نہاں نہ پوچھ
جس کا ستم بھی غیرت صد التفات ہے
یوں تو ہزار درد سے روتے ہیں بد نصیب
تم دل دکھاؤ وقت مصیبت تو بات ہے
عنوان غفلتوں کے ہیں قربت ہو یا وصال
بس فرصت حیات فراقؔ ایک رات ہے |
kamii-na-kii-tire-vahshii-ne-khaak-udaane-men-firaq-gorakhpuri-ghazals |
کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں
جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں
فراقؔ دوڑ گئی روح سی زمانے میں
کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں
جنوں سے بھول ہوئی دل پہ چوٹ کھانے میں
فراقؔ دیر ابھی تھی بہار آنے میں
وہ کوئی رنگ ہے جو اڑ نہ جائے اے گل تر
وہ کوئی بو ہے جو رسوا نہ ہو زمانے میں
وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے
وہ کوئی حسن ہے جھجکے جو رنگ لانے میں
یہ گل کھلے ہیں کہ چوٹیں جگر کی ابھری ہیں
نہاں بہار تھی بلبل ترے ترانے میں
بیان شمع ہے حاصل یہی ہے جلنے کا
فنا کی کیفیتیں دیکھ جھلملانے میں
کسی کی حالت دل سن کے اٹھ گئیں آنکھیں
کہ جان پڑ گئی حسرت بھرے فسانے میں
اسی کی شرح ہے یہ اٹھتے درد کا عالم
جو داستاں تھی نہاں تیرے آنکھ اٹھانے میں
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
ہمیں ہیں گل ہمیں بلبل ہمیں ہوائے چمن
فراقؔ خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں |
raat-bhii-niind-bhii-kahaanii-bhii-firaq-gorakhpuri-ghazals |
رات بھی نیند بھی کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی
ایک پیغام زندگانی بھی
عاشقی مرگ ناگہانی بھی
اس ادا کا تری جواب نہیں
مہربانی بھی سرگرانی بھی
دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں
کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی
منصب دل خوشی لٹانا ہے
غم پنہاں کی پاسبانی بھی
دل کو شعلوں سے کرتی ہے سیراب
زندگی آگ بھی ہے پانی بھی
شاد کاموں کو یہ نہیں توفیق
دل غمگیں کی شادمانی بھی
لاکھ حسن یقیں سے بڑھ کر ہے
ان نگاہوں کی بد گمانی بھی
تنگنائے دل ملول میں ہے
بحر ہستی کی بے کرانی بھی
عشق ناکام کی ہے پرچھائیں
شادمانی بھی کامرانی بھی
دیکھ دل کے نگار خانے میں
زخم پنہاں کی ہے نشانی بھی
خلق کیا کیا مجھے نہیں کہتی
کچھ سنوں میں تری زبانی بھی
آئے تاریخ عشق میں سو بار
موت کے دور درمیانی بھی
اپنی معصومیت کے پردے میں
ہو گئی وہ نظر سیانی بھی
دن کو سورج مکھی ہے وہ نو گل
رات کو ہے وہ رات رانی بھی
دل بد نام تیرے بارے میں
لوگ کہتے ہیں اک کہانی بھی
وضع کرتے کوئی نئی دنیا
کہ یہ دنیا ہوئی پرانی بھی
دل کو آداب بندگی بھی نہ آئے
کر گئے لوگ حکمرانی بھی
جور کم کم کا شکریہ بس ہے
آپ کی اتنی مہربانی بھی
دل میں اک ہوک بھی اٹھی اے دوست
یاد آئی تری جوانی بھی
سر سے پا تک سپردگی کی ادا
ایک انداز ترکمانی بھی
پاس رہنا کسی کا رات کی رات
میہمانی بھی میزبانی بھی
ہو نہ عکس جبین ناز کہ ہے
دل میں اک نور کہکشانی بھی
زندگی عین دید یار فراقؔ
زندگی ہجر کی کہانی بھی |
shaam-e-gam-kuchh-us-nigaah-e-naaz-kii-baaten-karo-firaq-gorakhpuri-ghazals |
شام غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو
بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو
یہ سکوت ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا
خامشی میں کچھ شکست ساز کی باتیں کرو
نکہت زلف پریشاں داستان شام غم
صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو
ہر رگ دل وجد میں آتی رہے دکھتی رہے
یوں ہی اس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو
جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی
اس سکوت راز اس آواز کی باتیں کرو
عشق رسوا ہو چلا بے کیف سا بیزار سا
آج اس کی نرگس غماز کی باتیں کرو
نام بھی لینا ہے جس کا اک جہان رنگ و بو
دوستو اس نو بہار ناز کی باتیں کرو
کس لیے عذر تغافل کس لیے الزام عشق
آج چرخ تفرقہ پرواز کی باتیں کرو
کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا
کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو
جو حیات جاوداں ہے جو ہے مرگ ناگہاں
آج کچھ اس ناز اس انداز کی باتیں کرو
عشق بے پروا بھی اب کچھ ناشکیبا ہو چلا
شوخئ حسن کرشہ ساز کی باتیں کرو
جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراقؔ
آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو |
jaur-o-be-mehrii-e-igmaaz-pe-kyaa-rotaa-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
جور و بے مہری اغماض پہ کیا روتا ہے
مہرباں بھی کوئی ہو جائے گا جلدی کیا ہے
کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی
جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے
دل کا اک کام جو ہوتا نہیں اک مدت سے
تم ذرا ہاتھ لگا دو تو ہوا رکھا ہے
نگۂ شوخ میں اور دل میں ہیں چوٹیں کیا کیا
آج تک ہم نہ سمجھ پائے کہ جھگڑا کیا ہے
عشق سے توبہ بھی ہے حسن سے شکوے بھی ہزار
کہیے تو حضرت دل آپ کا منشا کیا ہے
زینت دوش ترا نامۂ اعمال نہ ہو
تیری دستار سے واعظ یہ لٹکتا کیا ہے
ہاں ابھی وقت کا آئینہ دکھائے کیا کیا
دیکھتے جاؤ زمانہ ابھی دیکھا کیا ہے
نہ یگانے ہیں نہ بیگانے تری محفل میں
نہ کوئی غیر یہاں ہے نہ کوئی اپنا ہے
نگہ مست کو جنبش نہ ہوئی گو سر بزم
کچھ تو اس جام لبا لب سے ابھی چھلکا ہے
رات دن پھرتی ہے پلکوں کے جو سائے سائے
دل مرا اس نگۂ ناز کا دیوانا ہے
ہم جدائی سے بھی کچھ کام تو لے ہی لیں گے
بے نیازانہ تعلق ہی چھٹا اچھا ہے
ان سے بڑھ چڑھ کے تو اے دوست ہیں یادیں ان کی
ناز و انداز و ادا میں تری رکھا کیا ہے
ایسی باتوں سے بدلتی ہے کہیں فطرت حسن
جان بھی دے دے اگر کوئی تو کیا ہوتا ہے
تری آنکھوں کو بھی انکار تری زلف کو بھی
کس نے یہ عشق کو دیوانہ بنا رکھا ہے
دل ترا جان تری آہ تری اشک ترے
جو ہے اے دوست وہ تیرا ہے ہمارا کیا ہے
در دولت پہ دعائیں سی سنی ہیں میں نے
دیکھیے آج فقیروں کا کدھر پھیرا ہے
تجھ کو ہو جائیں گے شیطان کے درشن واعظ
ڈال کر منہ کو گریباں میں کبھی دیکھا ہے
ہم کہے دیتے ہیں چالوں میں نہ آؤ ان کی
ثروت و جاہ کے عشووں سے بچو دھوکا ہے
یہی گر آنکھ میں رہ جائے تو ہے چنگاری
قطرۂ اشک جو بہہ جائے تو اک دریا ہے
زلف شب گوں کے سوا نرگس جادو کے سوا
دل کو کچھ اور بلاؤں نے بھی آ گھیرا ہے
لب اعجاز کی سوگند یہ جھنکار تھی کیا
تیری خاموشی کے مانند ابھی کچھ ٹوٹا ہے
دار پر گاہ نظر گاہ سوئے شہر نگار
کچھ سنیں ہم بھی تو اے عشق ارادہ کیا ہے
آ کہ غربت کدۂ دہر میں جی بہلائیں
اے دل اس جلوہ گہہ ناز میں کیا رکھا ہے
زخم ہی زخم ہوں میں صبح کی مانند فراقؔ
رات بھر ہجر کی لذت سے مزا لوٹا ہے |
bastiyaan-dhuundh-rahii-hain-unhen-viiraanon-men-firaq-gorakhpuri-ghazals |
بستیاں ڈھونڈھ رہی ہیں انہیں ویرانوں میں
وحشتیں بڑھ گئیں حد سے ترے دیوانوں میں
نگۂ ناز نہ دیوانوں نہ فرزانوں میں
جان کار ایک وہی ہے مگر انجانوں میں
بزم مے بے خود و بے تاب نہ کیوں ہو ساقی
موج بادہ ہے کہ درد اٹھتا ہے پیمانوں میں
میں تو میں چونک اٹھی ہے یہ فضائے خاموش
یہ صدا کب کی سنی آتی ہے پھر کانوں میں
سیر کر اجڑے دلوں کی جو طبیعت ہے اداس
جی بہل جاتے ہیں اکثر انہیں ویرانوں میں
وسعتیں بھی ہیں نہاں تنگئ دل میں غافل
جی بہل جاتے ہیں اکثر انہیں میدانوں میں
جان ایمان جنوں سلسلہ جنبان جنوں
کچھ کشش ہائے نہاں جذب ہیں ویرانوں میں
خندۂ صبح ازل تیرگیٔ شام ابد
دونوں عالم ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں میں
دیکھ جب عالم ہو کو تو نیا عالم ہے
بستیاں بھی نظر آنے لگیں ویرانوں میں
جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کر اٹھے
گرمیاں ہیں کچھ ابھی سوختہ سامانوں میں
وحشتیں بھی نظر آتی ہیں سر پردۂ ناز
دامنوں میں ہے یہ عالم نہ گریبانوں میں
ایک رنگینیٔ ظاہر ہے گلستاں میں اگر
ایک شادابیٔ پنہاں ہے بیابانوں میں
جوہر غنچہ و گل میں ہے اک انداز جنوں
کچھ بیاباں نظر آئے ہیں گریبانوں میں
اب وہ رنگ چمن و خندۂ گل بھی نہ رہے
اب وہ آثار جنوں بھی نہیں دیوانوں میں
اب وہ ساقی کی بھی آنکھیں نہ رہیں رندوں میں
اب وہ ساغر بھی چھلکتے نہیں مے خانوں میں
اب وہ اک سوز نہانی بھی دلوں میں نہ رہا
اب وہ جلوے بھی نہیں عشق کے کاشانوں میں
اب نہ وہ رات جب امیدیں بھی کچھ تھیں تجھ سے
اب نہ وہ بات غم ہجر کے افسانوں میں
اب ترا کام ہے بس اہل وفا کا پانا
اب ترا نام ہے بس عشق کے غم خانوں میں
تا بہ کے وعدۂ موہوم کی تفصیل فراقؔ
شب فرقت کہیں کٹتی ہے ان افسانوں میں |
sar-men-saudaa-bhii-nahiin-dil-men-tamannaa-bhii-nahiin-firaq-gorakhpuri-ghazals |
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں
دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں
مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا
آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں
بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام
کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں
ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں
تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں
آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش
آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں
یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں
یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق
مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں
فطرت حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم
چارہ ہی کیا ہے بجز صبر سو ہوتا بھی نہیں
منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ
ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں |
firaaq-ik-naii-suurat-nikal-to-saktii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals |
فراقؔ اک نئی صورت نکل تو سکتی ہے
بقول اس آنکھ کے دنیا بدل تو سکتی ہے
ترے خیال کو کچھ چپ سی لگ گئی ورنہ
کہانیوں سے شب غم بہل تو سکتی ہے
عروس دہر چلے کھا کے ٹھوکریں لیکن
قدم قدم پہ جوانی ابل تو سکتی ہے
پلٹ پڑے نہ کہیں اس نگاہ کا جادو
کہ ڈوب کر یہ چھری کچھ اچھل تو سکتی ہے
بجھے ہوئے نہیں اتنے بجھے ہوئے دل بھی
فسردگی میں طبیعت مچل تو سکتی ہے
اگر تو چاہے تو غم والے شادماں ہو جائیں
نگاہ یار یہ حسرت نکل تو سکتی ہے
اب اتنی بند نہیں غم کدوں کی بھی راہیں
ہوائے کوچۂ محبوب چل تو سکتی ہے
کڑے ہیں کوس بہت منزل محبت کے
ملے نہ چھاؤں مگر دھوپ ڈھل تو سکتی ہے
حیات لو تہ دامان مرگ دے اٹھی
ہوا کی راہ میں یہ شمع جل تو سکتی ہے
کچھ اور مصلحت جذب عشق ہے ورنہ
کسی سے چھٹ کے طبیعت سنبھل تو سکتی ہے
ازل سے سوئی ہے تقدیر عشق موت کی نیند
اگر جگائیے کروٹ بدل تو سکتی ہے
غم زمانہ و سوز نہاں کی آنچ تو دے
اگر نہ ٹوٹے یہ زنجیر گل تو سکتی ہے
شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانیٔ حسن
نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے
کبھی وہ مل نہ سکے گی میں یہ نہیں کہتا
وہ آنکھ آنکھ میں پڑ کر بدل تو سکتی ہے
بدلتا جائے غم روزگار کا مرکز
یہ چال گردش ایام چل تو سکتی ہے
وہ بے نیاز سہی دل متاع ہیچ سہی
مگر کسی کی جوانی مچل تو سکتی ہے
تری نگاہ سہارا نہ دے تو بات ہے اور
کہ گرتے گرتے بھی دنیا سنبھل تو سکتی ہے
یہ زور و شور سلامت تری جوانی بھی
بقول عشق کے سانچے میں ڈھل تو سکتی ہے
سنا ہے برف کے ٹکڑے ہیں دل حسینوں کے
کچھ آنچ پا کے یہ چاندی پگھل تو سکتی ہے
ہنسی ہنسی میں لہو تھوکتے ہیں دل والے
یہ سر زمین مگر لعل اگل تو سکتی ہے
جو تو نے ترک محبت کو اہل دل سے کہا
ہزار نرم ہو یہ بات کھل تو سکتی ہے
ارے وہ موت ہو یا زندگی محبت پر
نہ کچھ سہی کف افسوس مل تو سکتی ہے
ہیں جس کے بل پہ کھڑے سرکشوں کو وہ دھرتی
اگر کچل نہیں سکتی نگل تو سکتی ہے
ہوئی ہے گرم لہو پی کے عشق کی تلوار
یوں ہی جلائے جا یہ شاخ پھل تو سکتی ہے
گزر رہی ہے دبے پاؤں عشق کی دیوی
سبک روی سے جہاں کو مسل تو سکتی ہے
حیات سے نگہہ واپسیں ہے کچھ مانوس
مرے خیال سے آنکھوں میں پل تو سکتی ہے
نہ بھولنا یہ ہے تاخیر حسن کی تاخیر
فراقؔ آئی ہوئی موت ٹل تو سکتی ہے |
koii-paigaam-e-mohabbat-lab-e-ejaaz-to-de-firaq-gorakhpuri-ghazals |
کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے
موت کی آنکھ بھی کھل جائے گی آواز تو دے
مقصد عشق ہم آہنگیٔ جزو و کل ہے
درد ہی درد سہی دل بوئے دم ساز تو دے
چشم مخمور کے عنوان نظر کچھ تو کھلیں
دل رنجور دھڑکنے کا کچھ انداز تو دے
اک ذرا ہو نشۂ حسن میں انداز خمار
اک جھلک عشق کے انجام کی آغاز تو دے
جو چھپائے نہ چھپے اور بتائے نہ بنے
دل عاشق کو ان آنکھوں سے کوئی راز تو دے
منتظر اتنی کبھی تھی نہ فضائے آفاق
چھیڑنے ہی کو ہوں پر درد غزل ساز تو دے
ہم اسیران قفس آگ لگا سکتے ہیں
فرصت نغمہ کبھی حسرت پرواز تو دے
عشق اک بار مشیت کو بدل سکتا ہے
عندیہ اپنا مگر کچھ نگہ ناز تو دے
قرب و دیدار تو معلوم کسی کا پھر بھی
کچھ پتہ سا فلک تفرقہ پرداز تو دے
منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں
ابلق دہر کچھ انداز تگ و تاز تو دے
کان سے ہم تو فراقؔ آنکھ کا لیتے ہیں کام
آج چھپ کر کوئی آواز پر آواز تو دے |
hijr-o-visaal-e-yaar-kaa-parda-uthaa-diyaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
ہجر و وصال یار کا پردہ اٹھا دیا
خود بڑھ کے عشق نے مجھے میرا پتا دیا
گرد و غبار ہستئ فانی اڑا دیا
اے کیمیائے عشق مجھے کیا بنا دیا
وہ سامنے ہے اور نظر سے چھپا دیا
اے عشق بے حجاب مجھے کیا دکھا دیا
وہ شان خامشی کہ بہاریں ہیں منتظر
وہ رنگ گفتگو کہ گلستاں بنا دیا
دم لے رہی تھیں حسن کی جب سحر کاریاں
ان وقفہ ہائے کفر کو ایماں بنا دیا
معلوم کچھ مجھی کو ہیں ان کی روانیاں
جن قطرہ ہائے اشک کو دریا بنا دیا
اک برق بے قرار تھی تمکین حسن بھی
جس وقت عشق کو غم صبر آزما دیا
ساقی مجھے بھی یاد ہیں وہ تشنہ کامیاں
جن کو حریف ساغر و مینا بنا دیا
معلوم ہے حقیقت غم ہائے روزگار
دنیا کو تیرے درد نے دنیا بنا دیا
اے شوخئ نگاہ کرم مدتوں کے بعد
خواب گران غم سے مجھے کیوں جگا دیا
کچھ شورشیں تغافل پنہاں میں تھیں جنہیں
ہنگامہ زار حشر تمنا بنا دیا
بڑھتا ہی جا رہا ہے جمال نظر فریب
حسن نظر کو حسن خود آرا بنا دیا
پھر دیکھنا نگاہ لڑی کس سے عشق کی
گر حسن نے حجاب تغافل اٹھا دیا
جب خون ہو چکا دل ہستیٔ اعتبار
کچھ درد بچ رہے جنہیں انساں بنا دیا
گم کروۂ وفور غم انتظار ہوں
تو کیا چھپا کہ مجھ کو مجھی سے چھپا دیا
رات اب حریف صبح قیامت ہی کیوں نہ ہو
جو کچھ بھی ہو اس آنکھ کو اب تو جگا دیا
اب میں ہوں اور لطف و کرم کے تکلفات
یہ کیوں حجاب رنجش بے جا بنا دیا
تھی یوں تو شام ہجر مگر پچھلی رات کو
وہ درد اٹھا فراقؔ کہ میں مسکرا دیا |
kuchh-ishaare-the-jinhen-duniyaa-samajh-baithe-the-ham-firaq-gorakhpuri-ghazals |
کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے
واہ ری غفلت تجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی
عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
پردۂ آزردگی میں تھی وہ جان التفات
جس ادا کو رنجش بے جا سمجھ بیٹھے تھے ہم
کیا کہیں الفت میں راز بے حسی کیوں کر کھلا
ہر نظر کو تیری درد افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بے نیازی کو تری پایا سراسر سوز و درد
تجھ کو اک دنیا سے بیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
انقلاب پے بہ پے ہر گردش و ہر دور میں
اس زمین و آسماں کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
بھول بیٹھی وہ نگاہ ناز عہد دوستی
اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم
صاف الگ ہم کو جنون عاشقی نے کر دیا
خود کو تیرے درد کا پردا سمجھ بیٹھے تھے ہم
کان بجتے ہیں محبت کے سکوت ناز کو
داستاں کا ختم ہو جانا سمجھ بیٹھے تھے ہم
باتوں باتوں میں پیام مرگ بھی آ ہی گیا
ان نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم
اب نہیں تاب سپاس حسن اس دل کو جسے
بے قرار شکوۂ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم
ایک دنیا درد کی تصویر نکلی عشق کو
کوہکن اور قیس کا قصہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ
مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم |
zer-o-bam-se-saaz-e-khilqat-ke-jahaan-bantaa-gayaa-firaq-gorakhpuri-ghazals |
زیر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیا
یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا
داستان جور بے حد خون سے لکھتا رہا
قطرہ قطرہ اشک غم کا بے کراں بنتا گیا
عشق تنہا سے ہوئیں آباد کتنی منزلیں
اک مسافر کارواں در کارواں بنتا گیا
میں ترے جس غم کو اپنا جانتا تھا وہ بھی تو
زیب عنوان حدیث دیگراں بنتا گیا
بات نکلے بات سے جیسے وہ تھا تیرا بیاں
نام تیرا داستاں در داستاں بنتا گیا
ہم کو ہے معلوم سب روداد علم و فلسفہ
ہاں ہر ایمان و یقیں وہم و گماں بنتا گیا
میں کتاب دل میں اپنا حال غم لکھتا رہا
ہر ورق اک باب تاریخ جہاں بنتا گیا
بس اسی کی ترجمانی ہے مرے اشعار میں
جو سکوت راز رنگیں داستاں بنتا گیا
میں نے سونپا تھا تجھے اک کام ساری عمر میں
وہ بگڑتا ہی گیا اے دل کہاں بنتا گیا
واردات دل کو دل ہی میں جگہ دیتے رہے
ہر حساب غم حساب دوستاں بنتا گیا
میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں
جو بھی میں کہتا گیا حسن بیاں بنتا گیا
وقت کے ہاتھوں یہاں کیا کیا خزانے لٹ گئے
ایک تیرا غم کہ گنج شائیگاں بنتا گیا
سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ
قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا |
jaagne-vaalo-taa-ba-sahar-khaamosh-raho-habib-jalib-ghazals |
جاگنے والو تا بہ سحر خاموش رہو
کل کیا ہوگا کس کو خبر خاموش رہو
کس نے سحر کے پاؤں میں زنجیریں ڈالیں
ہو جائے گی رات بسر خاموش رہو
شاید چپ رہنے میں عزت رہ جائے
چپ ہی بھلی اے اہل نظر خاموش رہو
قدم قدم پر پہرے ہیں ان راہوں میں
دار و رسن کا ہے یہ نگر خاموش رہو
یوں بھی کہاں بے تابئ دل کم ہوتی ہے
یوں بھی کہاں آرام مگر خاموش رہو
شعر کی باتیں ختم ہوئیں اس عالم میں
کیسا جوشؔ اور کس کا جگرؔ خاموش رہو |
ham-ne-dil-se-tujhe-sadaa-maanaa-habib-jalib-ghazals |
ہم نے دل سے تجھے سدا مانا
تو بڑا تھا تجھے بڑا مانا
میرؔ و غالبؔ کے بعد انیسؔ کے بعد
تجھ کو مانا بڑا بجا مانا
تو کہ دیوانۂ صداقت تھا
تو نے بندے کو کب خدا مانا
تجھ کو پروا نہ تھی زمانے کی
تو نے دل ہی کا ہر کہا مانا
تجھ کو خود پہ تھا اعتماد اتنا
خود ہی کو تو نہ رہنما مانا
کی نہ شب کی کبھی پذیرائی
صبح کو لائق ثنا مانا
ہنس دیا سطح ذہن عالم پر
جب کسی بات کا برا مانا
یوں تو شاعر تھے اور بھی اے جوشؔ
ہم نے تجھ سا نہ دوسرا مانا |
tum-se-pahle-vo-jo-ik-shakhs-yahaan-takht-nashiin-thaa-habib-jalib-ghazals |
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا |
afsos-tumhen-car-ke-shiishe-kaa-huaa-hai-habib-jalib-ghazals |
افسوس تمہیں کار کے شیشے کا ہوا ہے
پروا نہیں اک ماں کا جو دل ٹوٹ گیا ہے
ہوتا ہے اثر تم پہ کہاں نالۂ غم کا
برہم جو ہوئی بزم طرب اس کا گلا ہے
فرعون بھی نمرود بھی گزرے ہیں جہاں میں
رہتا ہے یہاں کون یہاں کون رہا ہے
تم ظلم کہاں تک تہ افلاک کرو گے
یہ بات نہ بھولو کہ ہمارا بھی خدا ہے
آزادئ انساں کے وہیں پھول کھلیں گے
جس جا پہ ظہیر آج ترا خون گرا ہے
تا چند رہے گی یہ شب غم کی سیاہی
رستہ کوئی سورج کا کہیں روک سکا ہے
تو آج کا شاعر ہے تو کر میری طرح بات
جیسے مرے ہونٹوں پہ مرے دل کی صدا ہے |
dushmanon-ne-jo-dushmanii-kii-hai-habib-jalib-ghazals |
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے
اپنی تو داستاں ہے بس اتنی
غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے
اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول
فکر ہم کو کلی کلی کی ہے
پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو
جستجو آج بھی اسی کی ہے
جب مہ و مہر بجھ گئے جالبؔ
ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے |
sher-hotaa-hai-ab-mahiinon-men-habib-jalib-ghazals |
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
زندگی ڈھل گئی مشینوں میں
پیار کی روشنی نہیں ملتی
ان مکانوں میں ان مکینوں میں
دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ
سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں
قہر کی آنکھ سے نہ دیکھ ان کو
دل دھڑکتے ہیں آبگینوں میں
آسمانوں کی خیر ہو یا رب
اک نیا عزم ہے زمینوں میں
وہ محبت نہیں رہی جالبؔ
ہم صفیروں میں ہم نشینوں میں |
aur-sab-bhuul-gae-harf-e-sadaaqat-likhnaa-habib-jalib-ghazals-1 |
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شہہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی
پڑھ کے نا خوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا
دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہہ کے مصاحب جالبؔ
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا |
dil-vaalo-kyuun-dil-sii-daulat-yuun-be-kaar-lutaate-ho-habib-jalib-ghazals |
دل والو کیوں دل سی دولت یوں بیکار لٹاتے ہو
کیوں اس اندھیاری بستی میں پیار کی جوت جگاتے ہو
تم ایسا نادان جہاں میں کوئی نہیں ہے کوئی نہیں
پھر ان گلیوں میں جاتے ہو پگ پگ ٹھوکر کھاتے ہو
سندر کلیو کومل پھولو یہ تو بتاؤ یہ تو کہو
آخر تم میں کیا جادو ہے کیوں من میں بس جاتے ہو
یہ موسم رم جھم کا موسم یہ برکھا یہ مست فضا
ایسے میں آؤ تو جانیں ایسے میں کب آتے ہو
ہم سے روٹھ کے جانے والو اتنا بھید بتا جاؤ
کیوں نت راتو کو سپنوں میں آتے ہو من جاتے ہو
چاند ستاروں کے جھرمٹ میں پھولوں کی مسکاہٹ میں
تم چھپ چھپ کر ہنستے ہو تم روپ کا مان بڑھاتے ہو
چلتے پھرتے روشن رستے تاریکی میں ڈوب گئے
سو جاؤ اب جالبؔ تم بھی کیوں آنکھیں سلگاتے ہو |
ab-terii-zaruurat-bhii-bahut-kam-hai-mirii-jaan-habib-jalib-ghazals |
اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں
اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں
اب تذکرۂ خندۂ گل بار ہے جی پر
جاں وقف غم گریہ شبنم ہے مری جاں
رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب
تصویر پریشانئ عالم ہے مری جاں
یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت
یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پر نم ہے مری جاں
ہم سادہ دلوں پر یہ شب غم کا تسلط
مایوس نہ ہو اور کوئی دم ہے مری جاں
یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے
ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں
اے نزہت مہتاب ترا غم ہے مری زیست
اے نازش خورشید ترا غم ہے مری جاں |
chuur-thaa-zakhmon-se-dil-zakhmii-jigar-bhii-ho-gayaa-habib-jalib-ghazals |
چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا
اس کو روتے تھے کہ سونا یہ نگر بھی ہو گیا
لوگ اسی صورت پریشاں ہیں جدھر بھی دیکھیے
اور وہ کہتے ہیں کوہ غم تو سر بھی ہو گیا
بام و در پر ہے مسلط آج بھی شام الم
یوں تو ان گلیوں سے خورشید سحر بھی ہو گیا
اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی
ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا |
bate-rahoge-to-apnaa-yuunhii-bahegaa-lahuu-habib-jalib-ghazals |
بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو
ہوئے نہ ایک تو منزل نہ بن سکے گا لہو
ہو کس گھمنڈ میں اے لخت لخت دیدہ ورو
تمہیں بھی قاتل محنت کشاں کہے گا لہو
اسی طرح سے اگر تم انا پرست رہے
خود اپنا راہنما آپ ہی بنے گا لہو
سنو تمہارے گریبان بھی نہیں محفوظ
ڈرو تمہارا بھی اک دن حساب لے گا لہو
اگر نہ عہد کیا ہم نے ایک ہونے کا
غنیم سب کا یوں ہی بیچتا رہے گا لہو
کبھی کبھی مرے بچے بھی مجھ سے پوچھتے ہیں
کہاں تک اور تو خشک اپنا ہی کرے گا لہو
صدا کہا یہی میں نے قریب تر ہے وہ دور
کہ جس میں کوئی ہمارا نہ پی سکے گا لہو |
vahii-haalaat-hain-faqiiron-ke-habib-jalib-ghazals |
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے |
us-rauunat-se-vo-jiite-hain-ki-marnaa-hii-nahiin-habib-jalib-ghazals |
اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ
خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں
ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام
شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں
کیا علاج اس کا اگر ہو مدعا ان کا یہی
اہتمام رنگ و بو گلشن میں کرنا ہی نہیں
ظلم سے ہیں برسر پیکار آزادی پسند
ان پہاڑوں میں جہاں پر کوئی جھرنا ہی نہیں
دل بھی ان کے ہیں سیہ خوراک زنداں کی طرح
ان سے اپنا غم بیاں اب ہم کو کرنا ہی نہیں
انتہا کر لیں ستم کی لوگ ابھی ہیں خواب میں
جاگ اٹھے جب لوگ تو ان کو ٹھہرنا ہی نہیں |
khuub-aazaadii-e-sahaafat-hai-habib-jalib-ghazals |
خوب آزادئ صحافت ہے
نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے
دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن
یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے
دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار
سب کو معلوم یہ حقیقت ہے
خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں
کس کی عزت یہاں سلامت ہے
کبھی جمہوریت یہاں آئے
یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے |
tire-maathe-pe-jab-tak-bal-rahaa-hai-habib-jalib-ghazals |
ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے
اجالا آنکھ سے اوجھل رہا ہے
سماتے کیا نظر میں چاند تارے
تصور میں ترا آنچل رہا ہے
تری شان تغافل کو خبر کیا
کوئی تیرے لیے بے کل رہا ہے
شکایت ہے غم دوراں کو مجھ سے
کہ دل میں کیوں ترا غم پل رہا ہے
تعجب ہے ستم کی آندھیوں میں
چراغ دل ابھی تک جل رہا ہے
لہو روئیں گی مغرب کی فضائیں
بڑی تیزی سے سورج ڈھل رہا ہے
زمانہ تھک گیا جالبؔ ہی تنہا
وفا کے راستے پر چل رہا ہے |
zarre-hii-sahii-koh-se-takraa-to-gae-ham-habib-jalib-ghazals |
ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
دل لے کے سر عرصۂ غم آ تو گئے ہم
اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا
روداد وفا دار پہ دہرا تو گئے ہم
کہتے تھے جو اب کوئی نہیں جاں سے گزرتا
لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم
جاں اپنی گنوا کر کبھی گھر اپنا جلا کر
دل ان کا ہر اک طور سے بہلا تو گئے ہم
کچھ اور ہی عالم تھا پس چہرۂ یاراں
رہتا جو یونہی راز اسے پا تو گئے ہم
اب سوچ رہے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے
پھر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا تو گئے ہم
اٹھیں کہ نہ اٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالبؔ
لوگوں کو سر دار نظر آ تو گئے ہم |
kaun-bataae-kaun-sujhaae-kaun-se-des-sidhaar-gae-habib-jalib-ghazals |
کون بتائے کون سجھائے کون سے دیس سدھار گئے
ان کا رستہ تکتے تکتے نین ہمارے ہار گئے
کانٹوں کے دکھ سہنے میں تسکین بھی تھی آرام بھی تھا
ہنسنے والے بھولے بھالے پھول چمن کے مار گئے
ایک لگن کی بات ہے جیون ایک لگن ہی جیون ہے
پوچھ نہ کیا کھویا کیا پایا کیا جیتے کیا ہار گئے
آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو
یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے
جب بھی لوٹے پیار سے لوٹے پھول نہ پا کر گلشن میں
بھونرے امرت رس کی دھن میں پل پل سو سو بار گئے
ہم سے پوچھو ساحل والو کیا بیتی دکھیاروں پر
کھیون ہارے بیچ بھنور میں چھوڑ کے جب اس پار گئے |
hujuum-dekh-ke-rasta-nahiin-badalte-ham-habib-jalib-ghazals |
ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم
ہزار زیر قدم راستہ ہو خاروں کا
جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم
اسی لیے تو نہیں معتبر زمانے میں
کہ رنگ صورت دنیا نہیں بدلتے ہم
ہوا کو دیکھ کے جالبؔ مثال ہم عصراں
بجا یہ زعم ہمارا نہیں بدلتے ہم |
dil-par-jo-zakhm-hain-vo-dikhaaen-kisii-ko-kyaa-habib-jalib-ghazals |
دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا
اپنا شریک درد بنائیں کسی کو کیا
ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا
زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا
بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار
رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا
رونے کو اپنے حال پہ تنہائی ہے بہت
اس انجمن میں خود پہ ہنسائیں کسی کو کیا
وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم
یادیں کسی کی تجھ کو ستائیں کسی کو کیا
سوئے ہوئے ہیں لوگ تو ہوں گے سکون سے
ہم جاگنے کا روگ لگائیں کسی کو کیا
جالبؔ نہ آئے گا کوئی احوال پوچھنے
دیں شہر بے حساں میں صدائیں کسی کو کیا |
apnon-ne-vo-ranj-diye-hain-begaane-yaad-aate-hain-habib-jalib-ghazals |
اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں
دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں
اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے
اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں
آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں
جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں
ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو
بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں
جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے
کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں
یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی
روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ
چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں |
faiz-aur-faiz-kaa-gam-bhuulne-vaalaa-hai-kahiin-habib-jalib-ghazals |
فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں
موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں
ہم سے جس وقت نے وہ شاہ سخن چھین لیا
ہم کو وہ وقت الم بھولنے والا ہے کہیں
ترے اشک اور بھی چمکائیں گی یادیں اس کی
ہم کو وہ دیدۂ نم بھولنے والا ہے کہیں
کبھی زنداں میں کبھی دور وطن سے اے دوست
جو کیا اس نے رقم بھولنے والا ہے کہیں
آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالبؔ
یہ مقدر کا ستم بھولنے والا ہے کہیں |
jiivan-mujh-se-main-jiivan-se-sharmaataa-huun-habib-jalib-ghazals |
جیون مجھ سے میں جیون سے شرماتا ہوں
مجھ سے آگے جانے والو میں آتا ہوں
جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں
دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں
سر سے سانسوں کا ناتا ہے توڑوں کیسے
تم جلتے ہو کیوں جیتا ہوں کیوں گاتا ہوں
تم اپنے دامن میں ستارے بیٹھ کر ٹانکو
اور میں نئے برن لفظوں کو پہناتا ہوں
جن خوابوں کو دیکھ کے میں نے جینا سیکھا
ان کے آگے ہر دولت کو ٹھکراتا ہوں
زہر اگلتے ہیں جب مل کر دنیا والے
میٹھے بولوں کی وادی میں کھو جاتا ہوں
جالبؔ میرے شعر سمجھ میں آ جاتے ہیں
اسی لیے کم رتبہ شاعر کہلاتا ہوں |
aag-hai-phailii-huii-kaalii-ghataaon-kii-jagah-habib-jalib-ghazals |
آگ ہے پھیلی ہوئی کالی گھٹاؤں کی جگہ
بد دعائیں ہیں لبوں پر اب دعاؤں کی جگہ
انتخاب اہل گلشن پر بہت روتا ہے دل
دیکھ کر زاغ و زغن کو خوش نواؤں کی جگہ
کچھ بھی ہوتا پر نہ ہوتے پارہ پارہ جسم و جاں
راہزن ہوتے اگر ان رہنماؤں کی جگہ
لٹ گئی اس دور میں اہل قلم کی آبرو
بک رہے ہیں اب صحافی بیسواؤں کی جگہ
کچھ تو آتا ہم کو بھی جاں سے گزرنے کا مزہ
غیر ہوتے کاش جالبؔ آشناؤں کی جگہ |
kabhii-to-mehrbaan-ho-kar-bulaa-len-habib-jalib-ghazals |
کبھی تو مہرباں ہو کر بلا لیں
یہ مہوش ہم فقیروں کی دعا لیں
نہ جانے پھر یہ رت آئے نہ آئے
جواں پھولوں کی کچھ خوشبو چرا لیں
بہت روئے زمانے کے لیے ہم
ذرا اپنے لیے آنسو بہا لیں
ہم ان کو بھولنے والے نہیں ہیں
سمجھتے ہیں غم دوراں کی چالیں
ہماری بھی سنبھل جائے گی حالت
وہ پہلے اپنی زلفیں تو سنبھالیں
نکلنے کو ہے وہ مہتاب گھر سے
ستاروں سے کہو نظریں جھکا لیں
ہم اپنے راستے پر چل رہے ہیں
جناب شیخ اپنا راستہ لیں
زمانہ تو یوں ہی روٹھا رہے گا
چلو جالبؔ انہیں چل کر منا لیں |
is-shahr-e-kharaabii-men-gam-e-ishq-ke-maare-habib-jalib-ghazals |
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
تابندہ و پایندہ ہیں ذروں کے سہارے
حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے
ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے
کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے |
na-dagmagaae-kabhii-ham-vafaa-ke-raste-men-habib-jalib-ghazals |
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں
کسے لگائے گلے اور کہاں کہاں ٹھہرے
ہزار غنچہ و گل ہیں صبا کے رستے میں
خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں
ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں
کہیں سلاسل تسبیح اور کہیں زنار
بچھے ہیں دام بہت مدعا کے رستے میں
ابھی وہ منزل فکر و نظر نہیں آئی
ہے آدمی ابھی جرم و سزا کے رستے میں
ہیں آج بھی وہی دار و رسن وہی زنداں
ہر اک نگاہ رموز آشنا کے رستے میں
یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں
مٹا سکے نہ کوئی سیل انقلاب جنہیں
وہ نقش چھوڑے ہیں ہم نے وفا کے رستے میں
زمانہ ایک سا جالبؔ سدا نہیں رہتا
چلیں گے ہم بھی کبھی سر اٹھا کے رستے میں |
vo-dekhne-mujhe-aanaa-to-chaahtaa-hogaa-habib-jalib-ghazals |
وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہوگا
مگر زمانے کی باتوں سے ڈر گیا ہوگا
اسے تھا شوق بہت مجھ کو اچھا رکھنے کا
یہ شوق اوروں کو شاید برا لگا ہوگا
کبھی نہ حد ادب سے بڑھے تھے دیدہ و دل
وہ مجھ سے کس لیے کسی بات پر خفا ہوگا
مجھے گمان ہے یہ بھی یقین کی حد تک
کسی سے بھی نہ وہ میری طرح ملا ہوگا
کبھی کبھی تو ستاروں کی چھاؤں میں وہ بھی
مرے خیال میں کچھ دیر جاگتا ہوگا
وہ اس کا سادہ و معصوم والہانہ پن
کسی بھی جگ میں کوئی دیوتا بھی کیا ہوگا
نہیں وہ آیا تو جالبؔ گلہ نہ کر اس کا
نہ جانے کیا اسے درپیش مسئلہ ہوگا |
ye-soch-kar-na-maail-e-fariyaad-ham-hue-habib-jalib-ghazals |
یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے
آباد کب ہوئے تھے کہ برباد ہم ہوئے
ہوتا ہے شاد کام یہاں کون با ضمیر
ناشاد ہم ہوئے تو بہت شاد ہم ہوئے
پرویز کے جلال سے ٹکرائے ہم بھی ہیں
یہ اور بات ہے کہ نہ فرہاد ہم ہوئے
کچھ ایسے بھا گئے ہمیں دنیا کے درد و غم
کوئے بتاں میں بھولی ہوئی یاد ہم ہوئے
جالبؔ تمام عمر ہمیں یہ گماں رہا
اس زلف کے خیال سے آزاد ہم ہوئے |
ye-jo-shab-ke-aivaanon-men-ik-halchal-ik-hashr-bapaa-hai-habib-jalib-ghazals |
یہ جو شب کے ایوانوں میں اک ہلچل اک حشر بپا ہے
یہ جو اندھیرا سمٹ رہا ہے یہ جو اجالا پھیل رہا ہے
یہ جو ہر دکھ سہنے والا دکھ کا مداوا جان گیا ہے
مظلوموں مجبوروں کا غم یہ جو مرے شعروں میں ڈھلا ہے
یہ جو مہک گلشن گلشن ہے یہ جو چمک عالم عالم ہے
مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے |
us-ne-jab-hans-ke-namaskaar-kiyaa-habib-jalib-ghazals |
اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا
مجھ کو انسان سے اوتار کیا
دشت غربت میں دل ویراں نے
یاد جمنا کو کئی بار کیا
پیار کی بات نہ پوچھو یارو
ہم نے کس کس سے نہیں پیار کیا
کتنی خوابیدہ تمناؤں کو
اس کی آواز نے بیدار کیا
ہم پجاری ہیں بتوں کے جالبؔ
ہم نے کعبے میں بھی اقرار کیا |
ik-shakhs-baa-zamiir-miraa-yaar-mushafii-habib-jalib-ghazals |
اک شخص با ضمیر مرا یار مصحفیؔ
میری طرح وفا کا پرستار مصحفیؔ
رہتا تھا کج کلاہ امیروں کے درمیاں
یکسر لئے ہوئے مرا کردار مصحفیؔ
دیتے ہیں داد غیر کو کب اہل لکھنؤ
کب داد کا تھا ان سے طلب گار مصحفیؔ
نا قدریٔ جہاں سے کئی بار آ کے تنگ
اک عمر شعر سے رہا بیزار مصحفیؔ
دربار میں تھا بار کہاں اس غریب کو
برسوں مثال میرؔ پھرا خوار مصحفیؔ
میں نے بھی اس گلی میں گزاری ہے رو کے عمر
ملتا ہے اس گلی میں کسے پیار مصحفیؔ |
log-giiton-kaa-nagar-yaad-aayaa-habib-jalib-ghazals |
لوگ گیتوں کا نگر یاد آیا
آج پردیس میں گھر یاد آیا
جب چلے آئے چمن زار سے ہم
التفات گل تر یاد آیا
تیری بیگانہ نگاہی سر شام
یہ ستم تا بہ سحر یاد آیا
ہم زمانے کا ستم بھول گئے
جب ترا لطف نظر یاد آیا
تو بھی مسرور تھا اس شب سر بزم
اپنے شعروں کا اثر یاد آیا
پھر ہوا درد تمنا بیدار
پھر دل خاک بسر یاد آیا
ہم جسے بھول چکے تھے جالبؔ
پھر وہی راہ گزر یاد آیا |
baaten-to-kuchh-aisii-hain-ki-khud-se-bhii-na-kii-jaaen-habib-jalib-ghazals |
باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں
سوچا ہے خموشی سے ہر اک زہر کو پی جائیں
اپنا تو نہیں کوئی وہاں پوچھنے والا
اس بزم میں جانا ہے جنہیں اب تو وہی جائیں
اب تجھ سے ہمیں کوئی تعلق نہیں رکھنا
اچھا ہو کہ دل سے تری یادیں بھی چلی جائیں
اک عمر اٹھائے ہیں ستم غیر کے ہم نے
اپنوں کی تو اک پل بھی جفائیں نہ سہی جائیں
جالبؔ غم دوراں ہو کہ یاد رخ جاناں
تنہا مجھے رہنے دیں مرے دل سے سبھی جائیں |
dil-e-pur-shauq-ko-pahluu-men-dabaae-rakkhaa-habib-jalib-ghazals |
دل پر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا
تجھ سے بھی ہم نے ترا پیار چھپائے رکھا
چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے
ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا
غیر ممکن تھی زمانے کے غموں سے فرصت
پھر بھی ہم نے ترا غم دل میں بسائے رکھا
پھول کو پھول نہ کہتے سو اسے کیا کہتے
کیا ہوا غیر نے کالر پہ سجائے رکھا
جانے کس حال میں ہیں کون سے شہروں میں ہیں وہ
زندگی اپنی جنہیں ہم نے بنائے رکھا
ہائے کیا لوگ تھے وہ لوگ پری چہرہ لوگ
ہم نے جن کے لیے دنیا کو بھلائے رکھا
اب ملیں بھی تو نہ پہچان سکیں ہم ان کو
جن کو اک عمر خیالوں میں بسائے رکھا |
kuchh-log-khayaalon-se-chale-jaaen-to-soen-habib-jalib-ghazals |
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں
بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں
چہرے جو کبھی ہم کو دکھائی نہیں دیں گے
آ آ کے تصور میں نہ تڑپائیں تو سوئیں
برسات کی رت کے وہ طرب ریز مناظر
سینے میں نہ اک آگ سی بھڑکائیں تو سوئیں
صبحوں کے مقدر کو جگاتے ہوئے مکھڑے
آنچل جو نگاہوں میں نہ لہرائیں تو سوئیں
محسوس یہ ہوتا ہے ابھی جاگ رہے ہیں
لاہور کے سب یار بھی سو جائیں تو سوئیں |
kam-puraanaa-bahut-nayaa-thaa-firaaq-habib-jalib-ghazals |
کم پرانا بہت نیا تھا فراق
اک عجب رمز آشنا تھا فراق
دور وہ کب ہوا نگاہوں سے
دھڑکنوں میں بسا ہوا ہے فراق
شام غم کے سلگتے صحرا میں
اک امنڈتی ہوئی گھٹا تھا فراق
امن تھا پیار تھا محبت تھا
رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق
فاصلے نفرتوں کے مٹ جائیں
پیار ہی پیار سوچتا تھا فراق
ہم سے رنج و الم کے ماروں کو
کس محبت سے دیکھتا تھا فراق
عشق انسانیت سے تھا اس کو
ہر تعصب سے ماورا تھا فراق |
darakht-suukh-gae-ruk-gae-nadii-naale-habib-jalib-ghazals |
درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے
یہ کس نگر کو روانہ ہوئے ہیں گھر والے
کہانیاں جو سناتے تھے عہد رفتہ کی
نشاں وہ گردش ایام نے مٹا ڈالے
میں شہر شہر پھرا ہوں اسی تمنا میں
کسی کو اپنا کہوں کوئی مجھ کو اپنا لے
صدا نہ دے کسی مہتاب کو اندھیروں میں
لگا نہ دے یہ زمانہ زبان پر تالے
کوئی کرن ہے یہاں تو کوئی کرن ہے وہاں
دل و نگاہ نے کس درجہ روگ ہیں پالے
ہمیں پہ ان کی نظر ہے ہمیں پہ ان کا کرم
یہ اور بات یہاں اور بھی ہیں دل والے
کچھ اور تجھ پہ کھلیں گی حقیقتیں جالبؔ
جو ہو سکے تو کسی کا فریب بھی کھا لے |
bahut-raushan-hai-shaam-e-gam-hamaarii-habib-jalib-ghazals |
بہت روشن ہے شام غم ہماری
کسی کی یاد ہے ہم دم ہماری
غلط ہے لا تعلق ہیں چمن سے
تمہارے پھول اور شبنم ہماری
یہ پلکوں پر نئے آنسو نہیں ہیں
ازل سے آنکھ ہے پر نم ہماری
ہر اک لب پر تبسم دیکھنے کی
تمنا کب ہوئی ہے کم ہماری
کہی ہے ہم نے خود سے بھی بہت کم
نہ پوچھو داستان غم ہماری |
bhulaa-bhii-de-use-jo-baat-ho-gaii-pyaare-habib-jalib-ghazals |
بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے
تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے
نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے
اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
یہ کیسی شام خرابات ہو گئی پیارے
وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے
تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے |
phir-kabhii-laut-kar-na-aaenge-habib-jalib-ghazals |
پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے
ہم ترا شہر چھوڑ جائیں گے
دور افتادہ بستیوں میں کہیں
تیری یادوں سے لو لگائیں گے
شمع ماہ و نجوم گل کر کے
آنسوؤں کے دیئے جلائیں گے
آخری بار اک غزل سن لو
آخری بار ہم سنائیں گے
صورت موجۂ ہوا جالبؔ
ساری دنیا کی خاک اڑائیں گے |
vatan-ko-kuchh-nahiin-khatra-nizaam-e-zar-hai-khatre-men-habib-jalib-ghazals |
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صف ماتم بچھائے مرگ ظلمت پر
وہ نوحہ گر ہے خطرے میں وہ دانشور ہے خطرے میں
اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے
نہ تیرا گھر ہے خطرے میں نہ میرا گھر ہے خطرے میں
جہاں اقبالؔ بھی نذر خط تنسیخ ہو جالبؔ
وہاں تجھ کو شکایت ہے ترا جوہر ہے خطرے میں |
miir-o-gaalib-bane-yagaanaa-bane-habib-jalib-ghazals |
میرؔ و غالبؔ بنے یگانہؔ بنے
آدمی اے خدا خدا نہ بنے
موت کی دسترس میں کب سے ہیں
زندگی کا کوئی بہانہ بنے
اپنا شاید یہی تھا جرم اے دوست
با وفا بن کے بے وفا نہ بنے
ہم پہ اک اعتراض یہ بھی ہے
بے نوا ہو کے بے نوا نہ بنے
یہ بھی اپنا قصور کیا کم ہے
کسی قاتل کے ہم نوا نہ بنے
کیا گلہ سنگ دل زمانے کا
آشنا ہی جب آشنا نہ بنے
چھوڑ کر اس گلی کو اے جالبؔ
اک حقیقت سے ہم فسانہ بنے |
jhuutii-khabren-ghadne-vaale-jhuute-sher-sunaane-vaale-habib-jalib-ghazals |
جھوٹی خبریں گھڑنے والے جھوٹے شعر سنانے والے
لوگو صبر کہ اپنے کئے کی جلد سزا ہیں پانے والے
درد آنکھوں سے بہتا ہے اور چہرہ سب کچھ کہتا ہے
یہ مت لکھو وہ مت لکھو آئے بڑے سمجھانے والے
خود کاٹیں گے اپنی مشکل خود پائیں گے اپنی منزل
راہزنوں سے بھی بد تر ہیں راہنما کہلانے والے
ان سے پیار کیا ہے ہم نے ان کی راہ میں ہم بیٹھے ہیں
نا ممکن ہے جن کا ملنا اور نہیں جو آنے والے
ان پر بھی ہنستی تھی دنیا آوازیں کستی تھی دنیا
جالبؔ اپنی ہی صورت تھے عشق میں جاں سے جانے والے |
bade-bane-the-jaalib-saahab-pite-sadak-ke-biich-habib-jalib-ghazals |
بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ
گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ
کبھی گریباں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خون
ہمیں تو یوں ہی ملے سخن کے صلے سڑک کے بیچ
جسم پہ جو زخموں کے نشاں ہیں اپنے تمغے ہیں
ملی ہے ایسی داد وفا کی کسے سڑک کے بیچ |
sher-se-shaairii-se-darte-hain-habib-jalib-ghazals |
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں
دہر میں آہ بے کساں کے سوا
اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں
ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا
اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں
داور حشر بخش دے شاید
ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں
روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں
ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں
ہر قدم پر ہے محتسب جالبؔ
اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں |
kahiin-aah-ban-ke-lab-par-tiraa-naam-aa-na-jaae-habib-jalib-ghazals |
کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے
تجھے بے وفا کہوں میں وہ مقام آ نہ جائے
ذرا زلف کو سنبھالو مرا دل دھڑک رہا ہے
کوئی اور طائر دل تہہ دام آ نہ جائے
جسے سن کے ٹوٹ جائے مرا آرزو بھرا دل
تری انجمن سے مجھ کو وہ پیام آ نہ جائے
وہ جو منزلوں پہ لا کر کسی ہم سفر کو لوٹیں
انہیں رہزنوں میں تیرا کہیں نام آ نہ جائے
اسی فکر میں ہیں غلطاں یہ نظام زر کے بندے
جو تمام زندگی ہے وہ نظام آ نہ جائے
یہ مہ و نجوم ہنس لیں مرے آنسوؤں پہ جالبؔ
مرا ماہتاب جب تک لب بام آ نہ جائے |
phir-dil-se-aa-rahii-hai-sadaa-us-galii-men-chal-habib-jalib-ghazals |
پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل
شاید ملے غزل کا پتا اس گلی میں چل
کب سے نہیں ہوا ہے کوئی شعر کام کا
یہ شعر کی نہیں ہے فضا اس گلی میں چل
وہ بام و در وہ لوگ وہ رسوائیوں کے زخم
ہیں سب کے سب عزیز جدا اس گلی میں چل
اس پھول کے بغیر بہت جی اداس ہے
مجھ کو بھی ساتھ لے کے صبا اس گلی میں چل
دنیا تو چاہتی ہے یوں ہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل
بے نور و بے اثر ہے یہاں کی صدائے ساز
تھا اس سکوت میں بھی مزا اس گلی میں چل
جالبؔ پکارتی ہیں وہ شعلہ نوائیاں
یہ سرد رت یہ سرد ہوا اس گلی میں چل |
ye-aur-baat-terii-galii-men-na-aaen-ham-habib-jalib-ghazals-3 |
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے
آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم
شاید بہ قید زیست یہ ساعت نہ آ سکے
تم داستان شوق سنو اور سنائیں ہم
بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم |
yuun-vo-zulmat-se-rahaa-dast-o-garebaan-yaaro-habib-jalib-ghazals |
یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو
اس سے لرزاں تھے بہت شب کے نگہباں یارو
اس نے ہر گام دیا حوصلۂ تازہ ہمیں
وہ نہ اک پل بھی رہا ہم سے گریزاں یارو
اس نے مانی نہ کبھی تیرگیٔ شب سے شکست
دل اندھیروں میں رہا اس کا فروزاں یارو
اس کو ہر حال میں جینے کی ادا آتی تھی
وہ نہ حالات سے ہوتا تھا پریشاں یارو
اس نے باطل سے نہ تا زیست کیا سمجھوتہ
دہر میں اس سا کہاں صاحب ایماں یارو
اس کو تھی کشمکش دیر و حرم سے نفرت
اس سا ہندو نہ کوئی اس سا مسلماں یارو
اس نے سلطانیٔ جمہور کے نغمے لکھے
روح شاہوں کی رہی اس سے پریشاں یارو
اپنے اشعار کی شمعوں سے اجالا کر کے
کر گیا شب کا سفر کتنا وہ آساں یارو
اس کے گیتوں سے زمانے کو سنواریں یارو
روح ساحرؔ کو اگر کرنا ہے شاداں یارو |
dil-kii-baat-labon-par-laa-kar-ab-tak-ham-dukh-sahte-hain-habib-jalib-ghazals |
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں
وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں |
End of preview. Expand
in Dataset Viewer.
Urdu Poetry Dataset
Welcome to the Urdu Poetry Dataset! This dataset is a collection of Urdu poems where each entry includes two columns:
- Title: The title of the poem.
- Poem: The full text of the poem.
This dataset is ideal for natural language processing tasks such as text generation, language modeling, or cultural studies in computational linguistics.
Dataset Overview
The Urdu Poetry Dataset comprises a diverse collection of Urdu poems, capturing the rich heritage and literary nuances of the Urdu language. Each record in the dataset consists of:
- Poem Title: A brief title that reflects the theme or subject of the poem.
- Poem Text: The actual content of the poem.
The dataset is structured in a tabular format, making it straightforward to load and manipulate with popular data processing libraries.
Data Format
The dataset is provided in a standard tabular format (e.g., CSV or JSON). Each entry includes the following columns:
- title (
string
): The title of the poem. - poem (
string
): The full text of the poem.
Example (CSV format):
title,poem
"دل کی کتاب","یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے..."
"پھولوں کا سلسلہ","خوشبوؤں کی محفل میں، ایک پھول داستان کہتا ہے..."
How to Load the Dataset
You can easily load the dataset using the Hugging Face Datasets library. Below is an example using Python:
python
Copy
Edit
from datasets import load_dataset
# Replace 'your-username/urdu-poetry-dataset' with the actual repository name on Hugging Face Hub
dataset = load_dataset("your-username/urdu-poetry-dataset")
# Accessing the train split (if applicable, otherwise adjust accordingly)
print(dataset['train'][0])
Note: Ensure that you have installed the datasets library with:
bash
Copy
Edit
pip install datasets
Intended Use Cases
Text Generation: Train language models to generate Urdu poetry.
Stylistic Analysis: Analyze poetic styles and structures in Urdu literature.
Cultural Studies: Explore themes and cultural nuances present in Urdu poetry.
Machine Translation: Use as a resource for translating poetic texts between languages.
License
This dataset is distributed under the MIT License. See the LICENSE file for more details.
Contributing
Contributions are welcome! If you have additional data, improvements, or suggestions, please open an issue or submit a pull request on the GitHub repository.
Citation
If you use this dataset in your research, please consider citing it as follows:
bibtex
Copy
Edit
@dataset-ReySajju742/English-Urdu-Dataset,
author = Sajjad Rasool,
title = English Transliteration (Roman Urdu) of Urdu Poetry Dataset,
year = 2025,
publisher = ReySajju742,
url = https://huggingface.co/datasets/ReySajju742/English-Urdu-Dataset,
}
Contact
For any questions, suggestions, or issues, please contact sajjjad.rasool@gmail.com
- Downloads last month
- 0