title
stringlengths
22
123
content
stringlengths
70
2.22k
be-thikaane-hai-dil-e-gam-ghiin-thikaane-kii-kaho-firaq-gorakhpuri-ghazals
بے ٹھکانے ہے دل غمگیں ٹھکانے کی کہو شام ہجراں دوستو کچھ اس کے آنے کی کہو ہاں نہ پوچھ اک گرفتار قفس کی زندگی ہم صفیران چمن کچھ آشیانے کی کہو اڑ گیا ہے منزل دشوار میں غم کا سمند گیسوئے پر پیچ و خم کے تازیانے کی کہو بات بنتی اور باتوں سے نظر آتی نہیں اس نگاہ ناز کی باتیں بنانے کی کہو داستاں وہ تھی جسے دل بجھتے بجھتے کہہ گیا شمع بزم زندگی کے جھلملانے کی کہو کچھ دل مرحوم کی باتیں کرو اے اہل علم جس سے ویرانے تھے آباد اس دوانے کی کہو داستان زندگی بھی کس قدر دلچسپ ہے جو ازل سے چھڑ گیا ہے اس فسانے کی کہو یہ فسون نیم شب یہ خواب‌‌ ساماں خامشی سامری فن آنکھ کے جادو جگانے کی کہو کوئی کیا کھائے گا یوں سچی قسم جھوٹی قسم اس نگاہ ناز کی سوگندھ کھانے کی کہو شام ہی سے گوش بر آواز ہے بزم سخن کچھ فراقؔ اپنی سناؤ کچھ زمانے کی کہو
bahsen-chhidii-huii-hain-hayaat-o-mamaat-kii-firaq-gorakhpuri-ghazals
بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی سو بات بن گئی ہے فراقؔ ایک بات کی ساز نوائے درد حجابات دہر میں کتنی دکھی ہوئی ہیں رگیں کائنات کی رکھ لی جنہوں نے کشمکش زندگی کی لاج بے دردیاں نہ پوچھئے ان سے حیات کی یوں فرط بے خودی سے محبت میں جان دے تجھ کو بھی کچھ خبر نہ ہو اس واردات کی ہے عشق اس تبسم جاں بخش کا شہید رنگینیاں لئے ہے جو صبح حیات کی چھیڑا ہے درد عشق نے تار رگ عدم صورت پکڑ چلی ہیں نوائیں حیات کی شام ابد کو جلوۂ صبح بہار دے روداد چھیڑ زندگیٔ بے ثبات کی اس بزم بے خودی میں وجود عدم کہاں چلتی نہیں ہے سانس حیات و ممات کی سو درد اک تبسم پنہاں میں بند ہیں تصویر ہوں فراقؔ نشاط حیات کی
aaj-bhii-qaafila-e-ishq-ravaan-hai-ki-jo-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ جو تھا پھر ترا غم وہی رسوائے جہاں ہے کہ جو تھا پھر فسانہ بحدیث دگراں ہے کہ جو تھا منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں وہی انداز جہان گزراں ہے کہ جو تھا ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا آج تک ایک دھندلکے کا سماں ہے کہ جو تھا یوں تو اس دور میں بے کیف سی ہے بزم حیات ایک ہنگامہ سر رطل گراں ہے کہ جو تھا لاکھ کر جور و ستم لاکھ کر احسان و کرم تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا آج پھر عشق دو عالم سے جدا ہوتا ہے آستینوں میں لیے کون و مکاں ہے کہ جو تھا عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک لیے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا رات بھر حسن پر آئے بھی گئے سو سو رنگ شام سے عشق ابھی تک نگراں ہے کہ جو تھا جو بھی کر جور و ستم جو بھی کر احسان و کرم تجھ پہ اے دوست وہی وہم و گماں ہے کہ جو تھا آنکھ جھپکی کہ ادھر ختم ہوا روز وصال پھر بھی اس دن پہ قیامت کا گماں ہے کہ جو تھا قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا
tumhen-kyuunkar-bataaen-zindagii-ko-kyaa-samajhte-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals
تمہیں کیوں کر بتائیں زندگی کو کیا سمجھتے ہیں سمجھ لو سانس لینا خودکشی کرنا سمجھتے ہیں کسی بدمست کو راز آشنا سب کا سمجھتے ہیں نگاہ یار تجھ کو کیا بتائیں کیا سمجھتے ہیں بس اتنے پر ہمیں سب لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کو ہم اک دوسری دنیا سمجھتے ہیں کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں امیدوں میں بھی ان کی ایک شان بے نیازی ہے ہر آسانی کو جو دشوار ہو جانا سمجھتے ہیں یہی ضد ہے تو خیر آنکھیں اٹھاتے ہیں ہم اس جانب مگر اے دل ہم اس میں جان کا کھٹکا سمجھتے ہیں کہیں ہوں تیرے دیوانے ٹھہر جائیں تو زنداں ہے جدھر کو منہ اٹھا کر چل پڑے صحرا سمجھتے ہیں جہاں کی فطرت بیگانہ میں جو کیف غم بھر دیں وہی جینا سمجھتے ہیں وہی مرنا سمجھتے ہیں ہمارا ذکر کیا ہم کو تو ہوش آیا محبت میں مگر ہم قیس کا دیوانہ ہو جانا سمجھتے ہیں نہ شوخی شوخ ہے اتنی نہ پرکار اتنی پرکاری نہ جانے لوگ تیری سادگی کو کیا سمجھتے ہیں بھلا دیں ایک مدت کی جفائیں اس نے یہ کہہ کر تجھے اپنا سمجھتے تھے تجھے اپنا سمجھتے ہیں یہ کہہ کر آبلہ پا روندتے جاتے ہیں کانٹوں کو جسے تلووں میں کر لیں جذب اسے صحرا سمجھتے ہیں یہ ہستی نیستی سب موج خیزی ہے محبت کی نہ ہم قطرہ سمجھتے ہیں نہ ہم دریا سمجھتے ہیں فراقؔ اس گردش ایام سے کب کام نکلا ہے سحر ہونے کو بھی ہم رات کٹ جانا سمجھتے ہیں
tez-ehsaas-e-khudii-darkaar-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
تیز احساس خودی درکار ہے زندگی کو زندگی درکار ہے جو چڑھا جائے خمستان جہاں ہاں وہی لب تشنگی درکار ہے دیوتاؤں کا خدا سے ہوگا کام آدمی کو آدمی درکار ہے سو گلستاں جس اداسی پر نثار مجھ کو وہ افسردگی درکار ہے شاعری ہے سربسر تہذیب‌ قلب اس کو غم شائستگی درکار ہے شعلہ میں لاتا ہے جو سوز و گداز وہ خلوص باطنی درکار ہے خوبیٔ لفظ و بیاں سے کچھ سوا شاعری کو ساحری درکار ہے قادر مطلق کو بھی انسان کی سنتے ہیں بے چارگی درکار ہے اور ہوں گے طالب مدح جہاں مجھ کو بس تیری خوشی درکار ہے عقل میں یوں تو نہیں کوئی کمی اک ذرا دیوانگی درکار ہے ہوش والوں کو بھی میری رائے میں ایک گونہ بے خودی درکار ہے خطرۂ بسیار دانی کی قسم علم میں بھی کچھ کمی درکار ہے دوستو کافی نہیں چشم خرد عشق کو بھی روشنی درکار ہے میری غزلوں میں حقائق ہیں فقط آپ کو تو شاعری درکار ہے تیرے پاس آیا ہوں کہنے ایک بات مجھ کو تیری دوستی درکار ہے میں جفاؤں کا نہ کرتا یوں گلہ آج تیری ناخوشی درکار ہے اس کی زلف آراستہ پیراستہ اک ذرا سی برہمی درکار ہے زندہ دل تھا تازہ دم تھا ہجر میں آج مجھ کو بے دلی درکار ہے حلقہ حلقہ گیسوئے شب رنگ یار مجھ کو تیری ابتری درکار ہے عقل نے کل میرے کانوں میں کہا مجھ کو تیری زندگی درکار ہے تیز رو تہذیب عالم کو فراقؔ اک ذرا آہستگی درکار ہے
tuur-thaa-kaaba-thaa-dil-thaa-jalva-zaar-e-yaar-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
طور تھا کعبہ تھا دل تھا جلوہ زار یار تھا عشق سب کچھ تھا مگر پھر عالم اسرار تھا نشۂ صد جام کیف انتظار یار تھا ہجر میں ٹھہرا ہوا دل ساغر سرشار تھا الوداع اے بزم انجم ہجر کی شب الفراق تا بہ دور‌ زندگانی انتظار یار تھا ایک ادا سے بے نیاز قرب و دوری کر دیا ماورائے وصل و ہجراں حسن کا اقرار تھا جوہر آئینۂ عالم بنے آنسو مرے یوں تو سچ یہ ہے کہ رونا عشق میں بے کار تھا شوخئ رفتار وجہ ہستئ برباد تھی زندگی کیا تھی غبار رہ گزار یار تھا الفت دیرینہ کا جب ذکر اشاروں میں کیا مسکرا کر مجھ سے پوچھا تم کو کس سے پیار تھا دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگہ اے کوئے دوست خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا ذرہ ذرہ آئنہ تھا خود نمائی کا فراقؔ سر بسر صحرائے عالم جلوہ زار یار تھا
ik-roz-hue-the-kuchh-ishaaraat-khafii-se-firaq-gorakhpuri-ghazals
اک روز ہوئے تھے کچھ اشارات خفی سے عاشق ہیں ہم اس نرگس رعنا کے جبھی سے کرنے کو ہیں دور آج تو تو یہ روگ ہی جی سے اب رکھیں گے ہم پیار نہ تم سے نہ کسی سے احباب سے رکھتا ہوں کچھ امید شرافت رہتے ہیں خفا مجھ سے بہت لوگ اسی سے کہتا ہوں اسے میں تو خصوصیت پنہاں کچھ تم کو شکایت ہے کسی سے تو مجھی سے اشعار نہیں ہیں یہ مری روح کی ہے پیاس جاری ہوئے سرچشمے مری تشنہ لبی سے آنسو کو مرے کھیل تماشا نہ سمجھنا کٹ جاتا ہے پتھر اسی ہیرے کی کنی سے یاد لب جاناں ہے چراغ دل رنجور روشن ہے یہ گھر آج اسی لعل یمنی سے افلاک کی محراب ہے آئی ہوئی انگڑائی بے کیف کچھ آفاق کی اعضا شکنی سے کچھ زیر لب الفاظ کھنکتے ہیں فضا میں گونجی ہوئی ہے بزم تری کم سخنی سے آج انجمن عشق نہیں انجمن عشق کس درجہ کمی بزم میں ہے تیری کمی سے اس وادئ ویراں میں ہے سر چشمۂ دل بھی ہستی مری سیراب ہے آنکھوں کی نمی سے خود مجھ کو بھی تا دیر خبر ہو نہیں پائی آج آئی تری یاد اس آہستہ روی سے وہ ڈھونڈھنے نکلی ہے تری نکہت گیسو اک روز ملا تھا میں نسیم سحری سے سب کچھ وہ دلا دے مجھے سب کچھ وہ بنا دے اے دوست نہیں دور تری کم نگہی سے میعاد دوام و ابد اک نیند ہے اس کی ہم منتہیٔ جلوۂ جاناں ہیں ابھی سے اک دل کے سوا پاس ہمارے نہیں کچھ بھی جو کام ہو لے لیتے ہیں ہم لوگ اسی سے معلوم ہوا اور ہے اک عالم اسرار آئینۂ ہستی کی پریشاں نظری سے اس سے تو کہیں بیٹھ رہے توڑ کے اب پاؤں مل جائے نجات عشق کو اس در بدری سے رہتا ہوں فراقؔ اس لئے وارفتہ کہ دنیا کچھ ہوش میں آ جائے مری بے خبری سے
zindagii-dard-kii-kahaanii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
زندگی درد کی کہانی ہے چشم انجم میں بھی تو پانی ہے بے نیازانہ سن لیا غم دل مہربانی ہے مہربانی ہے وہ بھلا میری بات کیا مانے اس نے اپنی بھی بات مانی ہے شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز یا ترا شعلۂ جوانی ہے وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو گاہ گل گاہ رات رانی ہے بن کے معصوم سب کو تاڑ گئی آنکھ اس کی بڑی سیانی ہے آپ بیتی کہو کہ جگ بیتی ہر کہانی مری کہانی ہے دونوں عالم ہیں جس کے زیر نگیں دل اسی غم کی راجدھانی ہے ہم تو خوش ہیں تری جفا پر بھی بے سبب تیری سرگرانی ہے سر بہ سر یہ فراز‌ مہر و قمر تیری اٹھتی ہوئی جوانی ہے آج بھی سن رہے ہیں قصۂ عشق گو کہانی بہت پرانی ہے ضبط کیجے تو دل ہے انگارا اور اگر روئیے تو پانی ہے ہے ٹھکانا یہ در ہی اس کا بھی دل بھی تیرا ہی آستانی ہے ان سے ایسے میں جو نہ ہو جائے نو جوانی ہے نو جوانی ہے دل مرا اور یہ غم دنیا کیا ترے غم کی پاسبانی ہے گردش چشم ساقیٔ دوراں دور افلاک کی بھی پانی ہے اے لب ناز کیا ہیں وہ اسرار خامشی جن کی ترجمانی ہے مے کدوں کے بھی ہوش اڑنے لگے کیا تری آنکھ کی جوانی ہے خودکشی پر ہے آج آمادہ ارے دنیا بڑی دوانی ہے کوئی اظہار ناخوشی بھی نہیں بد گمانی سی بد گمانی ہے مجھ سے کہتا تھا کل فرشتۂ عشق زندگی ہجر کی کہانی ہے بحر ہستی بھی جس میں کھو جائے بوند میں بھی وہ بیکرانی ہے مل گئے خاک میں ترے عشاق یہ بھی اک امر آسمانی ہے زندگی انتظار ہے تیرا ہم نے اک بات آج جانی ہے کیوں نہ ہو غم سے ہی قماش اس کا حسن تصویر شادمانی ہے سونی دنیا میں اب تو میں ہوں اور ماتم عشق آنجہانی ہے کچھ نہ پوچھو فراقؔ عہد شباب رات ہے نیند ہے کہانی ہے
sitaaron-se-ulajhtaa-jaa-rahaa-huun-firaq-gorakhpuri-ghazals
ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں شب فرقت بہت گھبرا رہا ہوں ترے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں جہاں کو بھی سمجھتا جا رہا ہوں یقیں یہ ہے حقیقت کھل رہی ہے گماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہوں اگر ممکن ہو لے لے اپنی آہٹ خبر دو حسن کو میں آ رہا ہوں حدیں حسن و محبت کی ملا کر قیامت پر قیامت ڈھا رہا ہوں خبر ہے تجھ کو اے ضبط محبت ترے ہاتھوں میں لٹتا جا رہا ہوں اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں بھرم تیرے ستم کا کھل چکا ہے میں تجھ سے آج کیوں شرما رہا ہوں انہیں میں راز ہیں گلباریوں کے میں جو چنگاریاں برسا رہا ہوں جو ان معصوم آنکھوں نے دیے تھے وہ دھوکے آج تک میں کھا رہا ہوں ترے پہلو میں کیوں ہوتا ہے محسوس کہ تجھ سے دور ہوتا جا رہا ہوں حد‌‌ جور‌ و کرم سے بڑھ چلا حسن نگاہ یار کو یاد آ رہا ہوں جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں محبت اب محبت ہو چلی ہے تجھے کچھ بھولتا سا جا رہا ہوں اجل بھی جن کو سن کر جھومتی ہے وہ نغمے زندگی کے گا رہا ہوں یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ فراقؔ اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں
nigaah-e-naaz-ne-parde-uthaae-hain-kyaa-kyaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
نگاہ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا دو چار برق تجلی سے رہنے والوں نے فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا دلوں پہ کرتے ہوئے آج آتی جاتی چوٹ تری نگاہ نے پہلو بچائے ہیں کیا کیا نثار نرگس مے گوں کہ آج پیمانے لبوں تک آئے ہوئے تھرتھرائے ہیں کیا کیا وہ اک ذرا سی جھلک برق کم نگاہی کی جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا چراغ طور جلے آئنہ در آئینہ حجاب برق ادا نے اٹھائے ہیں کیا کیا بقدر ذوق نظر دید حسن کیا ہو مگر نگاہ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا کہیں چراغ کہیں گل کہیں دل برباد خرام ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا تغافل اور بڑھا اس غزال رعنا کا فسون غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا ہزار فتنۂ بیدار خواب رنگیں میں چمن میں غنچۂ گل رنگ لائے ہیں کیا کیا ترے خلوص نہاں کا تو آہ کیا کہنا سلوک اچٹے بھی دل میں سمائے ہیں کیا کیا نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا پیام حسن پیام جنوں پیام فنا تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا تمام حسن کے جلوے تمام محرومی بھرم نگاہ نے اپنے گنوائے ہیں کیا کیا فراقؔ راہ وفا میں سبک روی تیری بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
kisii-kaa-yuun-to-huaa-kaun-umr-bhar-phir-bhii-firaq-gorakhpuri-ghazals
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی کہوں یہ کیسے ادھر دیکھ یا نہ دیکھ ادھر کہ درد درد ہے پھر بھی نظر نظر پھر بھی خوشا اشارۂ پیہم زہے سکوت نظر دراز ہو کے فسانہ ہے مختصر پھر بھی جھپک رہی ہیں زمان و مکاں کی بھی آنکھیں مگر ہے قافلہ آمادۂ سفر پھر بھی شب فراق سے آگے ہے آج میری نظر کہ کٹ ہی جائے گی یہ شام بے سحر پھر بھی کہیں یہی تو نہیں کاشف حیات و ممات یہ حسن و عشق بظاہر ہیں بے خبر پھر بھی پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا وہ کوچہ روکش جنت ہو گھر ہے گھر پھر بھی لٹا ہوا چمن عشق ہے نگاہوں کو دکھا گیا وہی کیا کیا گل و ثمر پھر بھی خراب ہو کے بھی سوچا کیے ترے مہجور یہی کہ تیری نظر ہے تری نظر پھر بھی ہو بے نیاز اثر بھی کبھی تری مٹی وہ کیمیا ہی سہی رہ گئی کسر پھر بھی لپٹ گیا ترا دیوانہ گرچہ منزل سے اڑی اڑی سی ہے یہ خاک رہ گزر پھر بھی تری نگاہ سے بچنے میں عمر گزری ہے اتر گیا رگ جاں میں یہ نیشتر پھر بھی غم فراق کے کشتوں کا حشر کیا ہوگا یہ شام ہجر تو ہو جائے گی سحر پھر بھی فنا بھی ہو کے گراں باریٔ حیات نہ پوچھ اٹھائے اٹھ نہیں سکتا یہ درد سر پھر بھی ستم کے رنگ ہیں ہر التفات پنہاں میں کرم نما ہیں ترے جور سر بسر پھر بھی خطا معاف ترا عفو بھی ہے مثل سزا تری سزا میں ہے اک شان در گزر پھر بھی اگرچہ بے خودیٔ عشق کو زمانہ ہوا فراقؔ کرتی رہی کام وہ نظر پھر بھی
junuun-e-kaargar-hai-aur-main-huun-firaq-gorakhpuri-ghazals
جنون کارگر ہے اور میں ہوں حیات بے خبر ہے اور میں ہوں مٹا کر دل نگاہ اولیں سے تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں کہاں میں آ گیا اے زور پرواز وبال بال و پر ہے اور میں ہوں نگاہ اولیں سے ہو کے برباد تقاضائے دگر ہے اور میں ہوں مبارک باد ایام اسیری غم دیوار و در ہے اور میں ہوں تری جمعیتیں ہیں اور تو ہے حیات منتشر ہے اور میں ہوں کوئی ہو سست پیماں بھی تو یوں ہو یہ شام بے سحر ہے اور میں ہوں نگاہ بے محابا تیرے صدقے کئی ٹکڑے جگر ہے اور میں ہوں ٹھکانا ہے کچھ اس عذر ستم کا تری نیچی نظر ہے اور میں ہوں فراقؔ اک ایک حسرت مٹ رہی ہے یہ ماتم رات بھر ہے اور میں ہوں
narm-fazaa-kii-karvaten-dil-ko-dukhaa-ke-rah-gaiin-firaq-gorakhpuri-ghazals
نرم فضا کی کروٹیں دل کو دکھا کے رہ گئیں ٹھنڈی ہوائیں بھی تری یاد دلا کے رہ گئیں شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں مجھ کو خراب کر گئیں نیم نگاہیاں تری مجھ سے حیات و موت بھی آنکھیں چرا کے رہ گئیں حسن نظر فریب میں کس کو کلام تھا مگر تیری ادائیں آج تو دل میں سما کے رہ گئیں تب کہیں کچھ پتہ چلا صدق و خلوص حسن کا جب وہ نگاہیں عشق سے باتیں بنا کے رہ گئیں تیرے خرام ناز سے آج وہاں چمن کھلے فصلیں بہار کی جہاں خاک اڑا کے رہ گئیں پوچھ نہ ان نگاہوں کی طرفہ کرشمہ سازیاں فتنے سلا کے رہ گئیں فتنے جگا کے رہ گئیں تاروں کی آنکھ بھی بھر آئی میری صدائے درد پر ان کی نگاہیں بھی ترا نام بتا کے رہ گئیں اف یہ زمیں کی گردشیں آہ یہ غم کی ٹھوکریں یہ بھی تو بخت خفتہ کے شانے ہلا کے رہ گئیں اور تو اہل درد کون سنبھالتا بھلا ہاں تیری شادمانیاں ان کو رلا کے رہ گئیں یاد کچھ آئیں اس طرح بھولی ہوئی کہانیاں کھوے ہوئے دلوں میں آج درد اٹھا کے رہ گئیں ساز نشاط زندگی آج لرز لرز اٹھا کس کی نگاہیں عشق کا درد سنا کے رہ گئیں تم نہیں آئے اور رات رہ گئی راہ دیکھتی تاروں کی محفلیں بھی آج آنکھیں بچھا کے رہ گئیں جھوم کے پھر چلیں ہوائیں وجد میں آئیں پھر فضائیں پھر تری یاد کی گھٹائیں سینوں پہ چھا کے رہ گئیں قلب و نگاہ کی یہ عید اف یہ مآل قرب و دید چرخ کی گردشیں تجھے مجھ سے چھپا کے رہ گئیں پھر ہیں وہی اداسیاں پھر وہی سونی کائنات اہل طرب کی محفلیں رنگ جما کے رہ گئیں کون سکون دے سکا غم زدگان عشق کو بھیگتی راتیں بھی فراقؔ آگ لگا کے رہ گئیں
mai-kade-men-aaj-ik-duniyaa-ko-izn-e-aam-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
میکدے میں آج اک دنیا کو اذن عام تھا دور جام بے خودی بیگانۂ ایام تھا روح لرزاں آنکھ محو دید دل ناکام تھا عشق کا آغاز بھی شائستۂ انجام تھا رفتہ رفتہ عشق کو تصویر غم کر ہی دیا حسن بھی کتنا خراب گردش ایام تھا غم کدے میں دہر کے یوں تو اندھیرا تھا مگر عشق کا داغ سیہ بختی چراغ شام تھا تیری دزدیدہ نگاہی یوں تو نا محسوس تھی ہاں مگر دفتر کا دفتر حسن کا پیغام تھا شاق اہل شوق پر تھیں اس کی عصمت داریاں سچ ہے لیکن حسن در پردہ بہت بد نام تھا محو تھے گلزار رنگا رنگ کے نقش و نگار وحشتیں تھی دل کے سناٹے تھے دشت شام تھا بے خطا تھا حسن ہر جور و جفا کے بعد بھی عشق کے سر تا ابد الزام ہی الزام تھا یوں گریباں چاک دنیا میں نہیں ہوتا کوئی ہر کھلا گلشن شہید گردش ایام تھا دیکھ حسن شرمگیں در پردہ کیا لایا ہے رنگ عشق رسوائے جہاں بدنام ہی بدنام تھا رونق بزم جہاں تھا گو دل غمگیں فراقؔ سرد تھا افسردہ تھا محروم تھا ناکام تھا
chhalak-ke-kam-na-ho-aisii-koii-sharaab-nahiin-firaq-gorakhpuri-ghazals
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں نگاہ نرگس رعنا ترا جواب نہیں زمین جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل وہ رات ہے کوئی ذرہ بھی محو خواب نہیں حیات درد ہوئی جا رہی ہے کیا ہوگا اب اس نظر کی دعائیں بھی مستجاب نہیں زمین اس کی فلک اس کا کائنات اس کی کچھ ایسا عشق ترا خانماں خراب نہیں ابھی کچھ اور ہو انسان کا لہو پانی ابھی حیات کے چہرے پر آب و تاب نہیں جہاں کے باب میں تر دامنوں کا قول یہ ہے یہ موج مارتا دریا کوئی سراب نہیں دکھا تو دیتی ہے بہتر حیات کے سپنے خراب ہو کے بھی یہ زندگی خراب نہیں
ye-narm-narm-havaa-jhilmilaa-rahe-hain-charaag-firaq-gorakhpuri-ghazals
یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ جھلکتی ہے کھنچی شمشیر میں نئی دنیا حیات و موت کے ملتے نہیں ہیں آج دماغ حریف سینۂ مجروح و آتش غم عشق نہ گل کی چاک گریبانیاں نہ لالے کے داغ وہ جن کے حال میں لو دے اٹھے غم فردا وہی ہیں انجمن زندگی کے چشم و چراغ تمام شعلۂ گل ہے تمام موج بہار کہ تا حد نگہ شوق لہلہاتے ہیں باغ نئی زمین نیا آسماں نئی دنیا سنا تو ہے کہ محبت کو ان دنوں ہے فراغ جو تہمتیں نہ اٹھیں اک جہاں سے ان کے سمیت گناہ گار محبت نکل گئے بے داغ جو چھپ کے تاروں کی آنکھوں سے پاؤں دھرتا ہے اسی کے نقش کف پا سے جل اٹھے ہیں چراغ جہان راز ہوئی جا رہی ہے آنکھ تری کچھ اس طرح وہ دلوں کا لگا رہی ہے سراغ زمانہ کود پڑا آگ میں یہی کہہ کر کہ خون چاٹ کے ہو جائے گی یہ آگ بھی باغ نگاہیں مطلع نو پر ہیں ایک عالم کی کہ مل رہا ہے کسی پھوٹتی کرن کا سراغ دلوں میں داغ محبت کا اب یہ عالم ہے کہ جیسے نیند میں ڈوبے ہوں پچھلی رات چراغ فراقؔ بزم چراغاں ہے محفل رنداں سجے ہیں پگھلی ہوئی آگ سے چھلکتے ایاغ
haath-aae-to-vahii-daaman-e-jaanaan-ho-jaae-firaq-gorakhpuri-ghazals
ہاتھ آئے تو وہی دامن جاناں ہو جائے چھوٹ جائے تو وہی اپنا گریباں ہو جائے عشق اب بھی ہے وہ محرم بیگانہ نما حسن یوں لاکھ چھپے لاکھ نمایاں ہو جائے ہوش و غفلت سے بہت دور ہے کیفیت عشق اس کی ہر بے خبری منزل عرفاں ہو جائے یاد آتی ہے جب اپنی تو تڑپ جاتا ہوں میری ہستی ترا بھولا ہوا پیماں ہو جائے آنکھ وہ ہے جو تری جلوہ گہہ ناز بنے دل وہی ہے جو سراپا ترا ارماں ہو جائے پاک بازان محبت میں جو بے باکی ہے حسن گر اس کو سمجھ لے تو پشیماں ہو جائے سہل ہو کر ہوئی دشوار محبت تیری اسے مشکل جو بنا لیں تو کچھ آساں ہو جائے عشق پھر عشق ہے جس روپ میں جس بھیس میں ہو عشرت وصل بنے یا غم ہجراں ہو جائے کچھ مداوا بھی ہو مجروح دلوں کا اے دوست مرہم زخم ترا جور‌ پشیماں ہو جائے یہ بھی سچ ہے کوئی الفت میں پریشاں کیوں ہو یہ بھی سچ ہے کوئی کیوں کر نہ پریشاں ہو جائے عشق کو عرض تمنا میں بھی لاکھوں پس و پیش حسن کے واسطے انکار بھی آساں ہو جائے جھلملاتی ہے سر بزم جہاں شمع خودی جو یہ بجھ جائے چراغ رہ عرفاں ہو جائے سر شوریدہ دیا دشت و بیاباں بھی دیے یہ مری خوبیٔ قسمت کہ وہ زنداں ہو جائے عقدۂ عشق عجب عقدۂ مہمل ہے فراقؔ کبھی لاحل کبھی مشکل کبھی آساں ہو جائے
ras-men-duubaa-huaa-lahraataa-badan-kyaa-kahnaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا کروٹیں لیتی ہوئی صبح چمن کیا کہنا نگہ ناز میں یہ پچھلے پہر رنگ خمار نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا باغ جنت پہ گھٹا جیسے برس کے کھل جائے یہ سہانی تری خوشبوئے بدن کیا کہنا ٹھہری ٹھہری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن کیا کہنا روپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا جیسے لہرائے کوئی شعلہ کمر کی یہ لچک سر بسر آتش سیال بدن کیا کہنا جس طرح جلوۂ فردوس ہواؤں سے چھنے پیرہن میں ترے رنگینیٔ تن کیا کہنا جلوہ و پردے کا یہ رنگ دم نظارہ جس طرح ادھ کھلے گھونگھٹ میں دلہن کیا کہنا دم تقریر کھل اٹھتے ہیں گلستاں کیا کیا یوں تو اک غنچۂ نورس ہے دہن کیا کہنا دل کے آئینے میں اس طرح اترتی ہے نگاہ جیسے پانی میں لچک جائے کرن کیا کہنا لہلہاتا ہوا یہ قد یہ لہکتا جوبن زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا تو محبت کا ستارہ تو جوانی کا سہاگ حسن لو دیتا ہے لعل یمن کیا کہنا تیری آواز سویرا تری باتیں تڑکا آنکھیں کھل جاتی ہیں اعجاز سخن کیا کہنا زلف شب گوں کی چمک پیکر سیمیں کی دمک دیپ مالا ہے سر گنگ و جمن کیا کہنا نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جوت جیسے چھنتی ہو ستاروں کی کرن کیا کہنا
vaqt-e-guruub-aaj-karaamaat-ho-gaii-firaq-gorakhpuri-ghazals
وقت غروب آج کرامات ہو گئی زلفوں کو اس نے کھول دیا رات ہو گئی کل تک تو اس میں ایسی کرامت نہ تھی کوئی وہ آنکھ آج قبلۂ حاجات ہو گئی اے سوز عشق تو نے مجھے کیا بنا دیا میری ہر ایک سانس مناجات ہو گئی اوچھی نگاہ ڈال کے اک سمت رکھ دیا دل کیا دیا غریب کی سوغات ہو گئی کچھ یاد آ گئی تھی وہ زلف شکن شکن ہستی تمام چشمۂ ظلمات ہو گئی اہل وطن سے دور جدائی میں یار کی صبر آ گیا فراقؔ کرامات ہو گئی
ab-aksar-chup-chup-se-rahen-hain-yuunhii-kabhuu-lab-kholen-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals
اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں دن میں ہم کو دیکھنے والو اپنے اپنے ہیں اوقات جاؤ نہ تم ان خشک آنکھوں پر ہم راتوں کو رو لیں ہیں فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہو لیں ہیں خنک سیہ مہکے ہوئے سائے پھیل جائیں ہیں جل تھل پر کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولیں ہیں باغ میں وہ خواب آور عالم موج صبا کے اشاروں پر ڈالی ڈالی نورس پتے سہج سہج جب ڈولیں ہیں اف وہ لبوں پر موج تبسم جیسے کروٹیں لیں کوندے ہائے وہ عالم جنبش مژگاں جب فتنے پر تولیں ہیں نقش و نگار غزل میں جو تم یہ شادابی پاؤ ہو ہم اشکوں میں کائنات کے نوک قلم کو ڈبو لیں ہیں ان راتوں کو حریم ناز کا اک عالم ہوئے ہے ندیم خلوت میں وہ نرم انگلیاں بند قبا جب کھولیں ہیں غم کا فسانہ سننے والو آخر شب آرام کرو کل یہ کہانی پھر چھیڑیں گے ہم بھی ذرا اب سو لیں ہیں ہم لوگ اب تو اجنبی سے ہیں کچھ تو بتاؤ حال فراقؔ اب تو تمہیں کو پیار کریں ہیں اب تو تمہیں سے بولیں ہیں
mujh-ko-maaraa-hai-har-ik-dard-o-davaa-se-pahle-firaq-gorakhpuri-ghazals
مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے دی سزا عشق نے ہر جرم و خطا سے پہلے آتش عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے ہونٹ جلتے ہیں محبت میں دعا سے پہلے فتنے برپا ہوئے ہر غنچۂ سربستہ سے کھل گیا راز چمن چاک قبا سے پہلے چال ہے بادۂ ہستی کا چھلکتا ہوا جام ہم کہاں تھے ترے نقش کف پا سے پہلے اب کمی کیا ہے ترے بے سر و سامانوں کو کچھ نہ تھا تیری قسم ترک وفا سے پہلے عشق بے باک کو دعوے تھے بہت خلوت میں کھو دیا سارا بھرم شرم و حیا سے پہلے خود بخود چاک ہوئے پیرہن لالہ و گل چل گئی کون ہوا باد صبا سے پہلے ہم سفر راہ عدم میں نہ ہو تاروں بھری رات ہم پہنچ جائیں گے اس آبلہ پا سے پہلے پردۂ شرم میں صد برق تبسم کے نثار ہوش جاتے رہے نیرنگ حیا سے پہلے موت کے نام سے ڈرتے تھے ہم اے شوق حیات تو نے تو مار ہی ڈالا تھا قضا سے پہلے بے تکلف بھی ترا حسن خود آرا تھا کبھی اک ادا اور بھی تھی حسن ادا سے پہلے غفلتیں ہستئ فانی کی بتا دیں گی تجھے جو مرا حال تھا احساس فنا سے پہلے ہم انہیں پا کے فراقؔ اور بھی کچھ کھوئے گئے یہ تکلف تو نہ تھے عہد وفا سے پہلے
aankhon-men-jo-baat-ho-gaii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے اک شرح حیات ہو گئی ہے جب دل کی وفات ہو گئی ہے ہر چیز کی رات ہو گئی ہے غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے مدت سے خبر ملی نہ دل کی شاید کوئی بات ہو گئی ہے جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری تصویر حیات ہو گئی ہے اب ہو مجھے دیکھیے کہاں صبح ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے دل میں تجھ سے تھی جو شکایت اب غم کے نکات ہو گئی ہے اقرار گناہ عشق سن لو مجھ سے اک بات ہو گئی ہے جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی تیری سوغات ہو گئی ہے کیا جانیے موت پہلے کیا تھی اب میری حیات ہو گئی ہے گھٹتے گھٹتے تری عنایت میری اوقات ہو گئی ہے اس چشم سیہ کی یاد یکسر شام ظلمات ہو گئی ہے اس دور میں زندگی بشر کی بیمار کی رات ہو گئی ہے جیتی ہوئی بازیٔ محبت کھیلا ہوں تو مات ہو گئی ہے مٹنے لگیں زندگی کی قدریں جب غم سے نجات ہو گئی ہے وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے جب آئے ہیں رات ہو گئی ہے دنیا ہے کتنی بے ٹھکانہ عاشق کی برات ہو گئی ہے پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی اب برق صفات ہو گئی ہے جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے اک برگ نبات ہو گئی ہے اکا دکا صدائے زنجیر زنداں میں رات ہو گئی ہے ایک ایک صفت فراقؔ اس کی دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے
ye-nikhaton-kii-narm-ravii-ye-havaa-ye-raat-firaq-gorakhpuri-ghazals
یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات یاد آ رہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات مایوسیوں کی گود میں دم توڑتا ہے عشق اب بھی کوئی بنا لے تو بگڑی نہیں ہے بات کچھ اور بھی تو ہو ان اشارات کے سوا یہ سب تو اے نگاہ کرم بات بات بات اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات ہم اہل انتظار کے آہٹ پہ کان تھے ٹھنڈی ہوا تھی غم تھا ترا ڈھل چلی تھی رات یوں تو بچی بچی سی اٹھی وہ نگاہ ناز دنیائے دل میں ہو ہی گئی کوئی واردات جن کا سراغ پا نہ سکی غم کی روح بھی ناداں ہوئے ہیں عشق میں ایسے بھی سانحات ہر سعی و ہر عمل میں محبت کا ہاتھ ہے تعمیر زندگی کے سمجھ کچھ محرکات اس جا تری نگاہ مجھے لے گئی جہاں لیتی ہو جیسے سانس یہ بے جان کائنات کیا نیند آئے اس کو جسے جاگنا نہ آئے جو دن کو دن کرے وہ کرے رات کو بھی رات دریا کے مد و جزر بھی پانی کے کھیل ہیں ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات اہل رضا میں شان بغاوت بھی ہو ذرا اتنی بھی زندگی نہ ہو پابند رسمیات ہم اہل غم نے رنگ زمانہ بدل دیا کوشش تو کی سبھی نے مگر بن پڑے کی بات پیدا کرے زمین نئی آسماں نیا اتنا تو لے کوئی اثر دور کائنات شاعر ہوں گہری نیند میں ہیں جو حقیقتیں چونکا رہے ہیں ان کو بھی میرے توہمات مجھ کو تو غم نے فرصت غم بھی نہ دی فراقؔ دے فرصت حیات نہ جیسے غم حیات
aaii-hai-kuchh-na-puuchh-qayaamat-kahaan-kahaan-firaq-gorakhpuri-ghazals
آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں اف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام بہلائیں تجھ سے چھٹ کے طبیعت کہاں کہاں فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے تیرا اثر ہے اے غم فرقت کہاں کہاں ہر جنبش نگاہ میں صد کیف بے خودی بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں راہ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں دل کے افق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں اے نرگس سیاہ بتا دے ترے نثار کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں نیرنگ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں فرق آ گیا تھا دور حیات و ممات میں آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں جیسے فنا بقا میں بھی کوئی کمی سی ہو مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی تیرے لئے اٹھائی ندامت کہاں کہاں اب امتیاز عشق و ہوس بھی نہیں رہا ہوتی ہے تیری چشم عنایت کہاں کہاں ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی اس راہ میں کھلے در رحمت کہاں کہاں ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں
kuchh-na-kuchh-ishq-kii-taasiir-kaa-iqraar-to-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
کچھ نہ کچھ عشق کی تاثیر کا اقرار تو ہے اس کا الزام تغافل پہ کچھ انکار تو ہے ہر فریب غم دنیا سے خبردار تو ہے تیرا دیوانہ کسی کام میں ہشیار تو ہے دیکھ لیتے ہیں سبھی کچھ ترے مشتاق جمال خیر دیدار نہ ہو حسرت دیدار تو ہے معرکے سر ہوں اسی برق نظر سے اے حسن یہ چمکتی ہوئی چلتی ہوئی تلوار تو ہے سر پٹکنے کو پٹکتا ہے مگر رک رک کر تیرے وحشی کو خیال در و دیوار تو ہے عشق کا شکوۂ بے جا بھی نہ بے کار گیا نہ سہی جور مگر جور کا اقرار تو ہے تجھ سے ہمت تو پڑی عشق کو کچھ کہنے کی خیر شکوہ نہ سہی شکر کا اظہار تو ہے اس میں بھی رابطۂ خاص کی ملتی ہے جھلک خیر اقرار محبت نہ ہو انکار تو ہے کیوں جھپک جاتی ہے رہ رہ کے تری برق نگاہ یہ جھجک کس لئے اک کشتۂ دیدار تو ہے کئی عنوان ہیں ممنون کرم کرنے کے عشق میں کچھ نہ سہی زندگی بیکار تو ہے سحر و شام سر انجمن ناز نہ ہو جلوۂ حسن تو ہے عشق سیہ کار تو ہے چونک اٹھتے ہیں فراقؔ آتے ہی اس شوخ کا نام کچھ سراسیمگیٔ عشق کا اقرار تو ہے
rukii-rukii-sii-shab-e-marg-khatm-par-aaii-firaq-gorakhpuri-ghazals-1
رکی رکی سی شب مرگ ختم پر آئی وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ مسافروں سے کہو اس کی رہ گزر آئی فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی کہیں زمان و مکاں میں ہے نام کو بھی سکوں مگر یہ بات محبت کی بات پر آئی کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی دلوں میں آج تری یاد مدتوں کے بعد بہ چہرۂ متبسم بہ چشم تر آئی نیا نہیں ہے مجھے مرگ ناگہاں کا پیام ہزار رنگ سے اپنی مجھے خبر آئی فضا کو جیسے کوئی راگ چیرتا جائے تری نگاہ دلوں میں یوں ہی اتر آئی ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی ترا ہی عکس سرشک غم زمانہ میں تھا نگاہ میں تری تصویر سی اتر آئی عجب نہیں کہ چمن در چمن بنے ہر پھول کلی کلی کی صبا جا کے گود بھر آئی شب فراقؔ اٹھے دل میں اور بھی کچھ درد کہوں یہ کیسے تری یاد رات بھر آئی
bahut-pahle-se-un-qadmon-kii-aahat-jaan-lete-hain-firaq-gorakhpuri-ghazals
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں نگاہ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں حیات عشق کا اک اک نفس جام شہادت ہے وہ جان ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی مری باتیں بعنوان دگر وہ مان لیتے ہیں تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں اب اس کو کفر مانیں یا بلندیٔ نظر جانیں خدائے دو جہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبار الفت میں ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگندھ کھاتی ہے تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں رفیق زندگی تھی اب انیس وقت آخر ہے ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں زمانہ واردات قلب سننے کو ترستا ہے اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں
har-naala-tire-dard-se-ab-aur-hii-kuchh-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
ہر نالہ ترے درد سے اب اور ہی کچھ ہے ہر نغمہ سر بزم طرب اور ہی کچھ ہے ارباب وفا جان بھی دینے کو ہیں تیار ہستی کا مگر حسن طلب اور ہی کچھ ہے یہ کام نہ لے نالہ و فریاد و فغاں سے افلاک الٹ دینے کا ڈھب اور ہی کچھ ہے اک سلسلۂ راز ہے جینا کہ ہو مرنا جب اور ہی کچھ تھا مگر اب اور ہی کچھ ہے کچھ مہر قیامت ہے نہ کچھ نار جہنم ہشیار کہ وہ قہر و غضب اور ہی کچھ ہے مذہب کی خرابی ہے نہ اخلاق کی پستی دنیا کے مصائب کا سبب اور ہی کچھ ہے بیہودہ سری سجدے میں ہے جان کھپانا آئین محبت میں ادب اور ہی کچھ ہے کیا حسن کے انداز تغافل کی شکایت پیمان وفا عشق کا جب اور ہی کچھ ہے دنیا کو جگا دے جو عدم کو بھی سلا دے سنتے ہیں کہ وہ روز وہ شب اور ہی کچھ ہے آنکھوں نے فراقؔ آج نہ پوچھو جو دکھایا جو کچھ نظر آتا ہے وہ سب اور ہی کچھ ہے
chhed-ai-dil-ye-kisii-shokh-ke-rukhsaaron-se-firaq-gorakhpuri-ghazals
چھیڑ اے دل یہ کسی شوخ کے رخساروں سے کھیلنا آہ دہکتے ہوئے انگاروں سے ہم شب ہجر میں جب سوتی ہے ساری دنیا ذکر کرتے ہیں ترا چھٹکے ہوئے تاروں سے اشک بھر لائے کسی نے جو ترا نام لیا اور کیا ہجر میں ہوتا ترے بیماروں سے چھیڑ نغمہ کوئی گو دل کی شکستہ ہیں رگیں ہم نکالیں گے صدا ٹوٹے ہوئے تاروں سے ہم کو تیری ہے ضرورت نہ اسے بھول اے دوست تیرے اقراروں سے مطلب ہے نہ انکاروں سے ہم ہیں وہ بیکس و بے یار کہ بیٹھے بیٹھے اپنا دکھ درد کہا کرتے ہیں دیواروں سے اہل دنیا سے یہ کہتے ہیں مرے نالۂ دل ہم صدا دیں گے غم ہجر کے میناروں سے عشق ہمدردیٔ عالم کا روادار نہیں ہو گئی بھول فراقؔ آپ کے غم خواروں سے
zamiin-badlii-falak-badlaa-mazaaq-e-zindagii-badlaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
زمیں بدلی فلک بدلا مذاق زندگی بدلا تمدن کے قدیم اقدار بدلے آدمی بدلا خدا و اہرمن بدلے وہ ایمان دوئی بدلا حدود خیر و شر بدلے مذاق کافری بدلا نئے انسان کا جب دور خود نا آگہی بدلا رموز بے خودی بدلے تقاضائے‌ خودی بدلا بدلتے جا رہے ہیں ہم بھی دنیا کو بدلنے میں نہیں بدلی ابھی دنیا تو دنیا کو ابھی بدلا نئی منزل کے میر کارواں بھی اور ہوتے ہیں پرانے خضر رہ بدلے وہ طرز رہبری بدلا کبھی سوچا بھی ہے اے نظم کہنہ کے خداوندو تمہارا حشر کیا ہوگا جو یہ عالم کبھی بدلا ادھر پچھلے سے اہل‌‌ مال و زر پر رات بھاری ہے ادھر بیداری جمہور کا انداز بھی بدلا زہے سوز‌ غم آدم خوشا ساز دل آدم اسی اک شمع کی لو نے جہان تیرگی بدلا نئے منصور ہیں صدیوں پرانے شیخ و قاضی ہیں نہ فتوے کفر کے بدلے نہ عذر دار ہی بدلا بتائے تو بتائے اس کو تیری شوخئ پنہاں تری چشم توجہ ہے کہ طرز بے رخی بدلا بہ فیض آدم خاکی زمیں سونا اگلتی ہے اسی ذرے نے دور مہر و ماہ و مشتری بدلا ستارے جاگتے ہیں رات لٹ چھٹکائے سوتی ہے دبے پاؤں کسی نے آ کے خواب زندگی بدلا فراقؔ ہمنوائے‌‌ میرؔ و غالبؔ اب نئے نغمے وہ بزم زندگی بدلی وہ رنگ شاعری بدلا
dete-hain-jaam-e-shahaadat-mujhe-maaluum-na-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
دیتے ہیں جام شہادت مجھے معلوم نہ تھا ہے یہ آئین محبت مجھے معلوم نہ تھا مطلب چشم مروت مجھے معلوم نہ تھا تجھ کو مجھ سے تھی شکایت مجھے معلوم نہ تھا چشم خاموش کی بابت مجھے معلوم نہ تھا یہ بھی ہے حرف و حکایت مجھے معلوم نہ تھا عشق بس میں ہے مشیت کے عقیدہ تھا مرا اس کے بس میں ہے مشیت مجھے معلوم نہ تھا ہفت خواں جس نے کئے طے سر راہ تسلیم ٹوٹ جاتی ہے وہ ہمت مجھے معلوم نہ تھا آج ہر قطرۂ مے بن گیا اک چنگاری تھی یہ ساقی کی شرارت مجھے معلوم نہ تھا نگہ مست نے تلوار اٹھا لی سر بزم یوں بدل جاتی ہے نیت مجھے معلوم نہ تھا غم ہستی سے جو بیزار رہا میں اک عمر تجھ سے بھی تھی اسے نسبت مجھے معلوم نہ تھا عشق بھی اہل طریقت میں ہے ایسا تھا خیال عشق ہے پیر طریقت مجھے معلوم نہ تھا پوچھ مت شرح کرم ہائے عزیزاں ہمدم ان میں اتنی تھی شرافت مجھے معلوم نہ تھا جب سے دیکھا ہے تجھے مجھ سے ہے میری ان بن حسن کا رنگ سیاست مجھے معلوم نہ تھا شکل انسان کی ہو چال بھی انسان کی ہو یوں بھی آتی ہے قیامت مجھے معلوم نہ تھا سر معمورۂ عالم یہ دل خانہ خراب مٹ گیا تیری بدولت مجھے معلوم نہ تھا پردۂ عرض وفا میں بھی رہا ہوں کرتا تجھ سے میں اپنی ہی غیبت مجھے معلوم نہ تھا نقد جاں کیا ہے زمانے میں محبت ہمدم نہیں ملتی کسی قیمت مجھے معلوم نہ تھا ہو گیا آج رفیقوں سے گلے مل کے جدا اپنا خود عشق صداقت مجھے معلوم نہ تھا درد دل کیا ہے کھلا آج ترے لڑنے پر تجھ سے اتنی تھی محبت مجھے معلوم نہ تھا دم نکل جائے مگر دل نہ لگائے کوئی عشق کی یہ تھی وصیت مجھے معلوم نہ تھا حسن والوں کو بہت سہل سمجھ رکھا تھا تجھ پہ آئے گی طبیعت مجھے معلوم نہ تھا کتنی خلاق ہے یہ نیستئ عشق فراقؔ اس سے ہستی ہے عبارت مجھے معلوم نہ تھا
gam-tiraa-jalva-gah-e-kaun-o-makaan-hai-ki-jo-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
غم ترا جلوہ گہہ کون و مکاں ہے کہ جو تھا یعنی انسان وہی شعلہ بجاں ہے کہ جو تھا پھر وہی رنگ تکلم نگہ ناز میں ہے وہی انداز وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا کب ہے انکار ترے لطف و کرم سے لیکن تو وہی دشمن دل دشمن جاں ہے کہ جو تھا عشق افسردہ نہیں آج بھی افسردہ بہت وہی کم کم اثر سوز نہاں ہے کہ جو تھا قرب ہی کم ہے نہ دوری ہی زیادہ لیکن آج وہ ربط کا احساس کہاں ہے کہ جو تھا نظر آ جاتے ہیں تم کو تو بہت نازک بال دل مرا کیا وہی اے شیشہ گراں ہے کہ جو تھا جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا حسن کو کھینچ تو لیتا ہے ابھی تک لیکن وہ اثر جذب محبت میں کہاں ہے کہ جو تھا آج بھی صید گہ عشق میں حسن سفاک لئے ابرو کی لچکتی سی کماں ہے کہ جو تھا پھر تری چشم سخن سنج نے چھیڑی کوئی بات وہی جادو ہے وہی حسن بیاں ہے کہ جو تھا پھر سر‌ میکدۂ عشق ہے اک بارش نور چھلکے جاموں سے چراغاں کا سماں ہے کہ جو تھا پھر وہی خیر نگاہی ہے ترے جلووں سے وہی عالم ترا اے برق دماں ہے کہ جو تھا آج بھی آگ دبی ہے دل انساں میں فراقؔ آج بھی سینوں سے اٹھتا وہ دھواں ہے کہ جو تھا
apne-gam-kaa-mujhe-kahaan-gam-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
اپنے غم کا مجھے کہاں غم ہے اے کہ تیری خوشی مقدم ہے آگ میں جو پڑا وہ آگ ہوا حسن سوز نہاں مجسم ہے اس کے شیطان کو کہاں توفیق عشق کرنا گناہ آدم ہے دل کے دھڑکوں میں زور ضرب کلیم کس قدر اس حباب میں دم ہے ہے وہی عشق زندہ و جاوید جسے آب حیات بھی سم ہے اس میں ٹھہراؤ یا سکون کہاں زندگی انقلاب پیہم ہے اک تڑپ موج تہ نشیں کی طرح زندگی کی بنائے محکم ہے رہتی دنیا میں عشق کی دنیا نئے عنوان سے منظم ہے اٹھنے والی ہے بزم ماضی کی روشنی کم ہے زندگی کم ہے یہ بھی نظم حیات ہے کوئی زندگی زندگی کا ماتم ہے اک معمہ ہے زندگی اے دوست یہ بھی تیری ادائے‌ مبہم ہے اے محبت تو اک عذاب سہی زندگی بے ترے جہنم ہے اک تلاطم سا رنگ و نکہت کا پیکر ناز میں دما دم ہے پھرنے کو ہے رسیلی نیم نگاہ آہوئے ناز مائل رم ہے روپ کے جوت زیر پیراہن گلستاں پر ردائے شبنم ہے میرے سینے سے لگ کے سو جاؤ پلکیں بھاری ہیں رات بھی کم ہے آہ یہ مہربانیاں تیری شادمانی کی آنکھ پر نم ہے نرم و دوشیزہ کس قدر ہے نگاہ ہر نظر داستان مریم ہے مہر و مہ شعلہ ہائے ساز جمال جس کی جھنکار اتنی مدھم ہے جیسے اچھلے جنوں کی پہلی شام اس ادا سے وہ زلف برہم ہے یوں بھی دل میں نہیں وہ پہلی امنگ اور تیری نگاہ بھی کم ہے اور کیوں چھیڑتی ہے گردش چرخ وہ نظر پھر گئی یہ کیا کم ہے روکش صد حریم دل ہے فضا وہ جہاں ہیں عجیب عالم ہے دئے جاتی ہے لو صدائے فراقؔ ہاں وہی سوز و ساز کم کم ہے
vo-chup-chaap-aansuu-bahaane-kii-raaten-firaq-gorakhpuri-ghazals
وہ چپ چاپ آنسو بہانے کی راتیں وہ اک شخص کے یاد آنے کی راتیں شب مہ کی وہ ٹھنڈی آنچیں وہ شبنم ترے حسن کے رسمسانے کی راتیں جوانی کی دوشیزگی کا تبسم گل زار کے وہ کھلانے کی راتیں پھواریں سی نغموں کی پڑتی ہوں جیسے کچھ اس لب کے سننے سنانے کی راتیں مجھے یاد ہے تیری ہر صبح رخصت مجھے یاد ہیں تیرے آنے کی راتیں پر اسرار سی میری عرض تمنا وہ کچھ زیر لب مسکرانے کی راتیں سر شام سے رتجگا کے وہ ساماں وہ پچھلے پہر نیند آنے کی راتیں سر شام سے تا سحر قرب جاناں نہ جانے وہ تھیں کس زمانے کی راتیں سر میکدہ تشنگی کی وہ قسمیں وہ ساقی سے باتیں بنانے کی راتیں ہم آغوشیاں شاہد مہرباں کی زمانے کے غم بھول جانے کی راتیں فراقؔ اپنی قسمت میں شاید نہیں تھے ٹھکانے کے دن یا ٹھکانے کی راتیں
samajhtaa-huun-ki-tuu-mujh-se-judaa-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
سمجھتا ہوں کہ تو مجھ سے جدا ہے شب فرقت مجھے کیا ہو گیا ہے ترا غم کیا ہے بس یہ جانتا ہوں کہ میری زندگی مجھ سے خفا ہے کبھی خوش کر گئی مجھ کو تری یاد کبھی آنکھوں میں آنسو آ گیا ہے حجابوں کو سمجھ بیٹھا میں جلوہ نگاہوں کو بڑا دھوکا ہوا ہے بہت دور اب ہے دل سے یاد تیری محبت کا زمانہ آ رہا ہے نہ جی خوش کر سکا تیرا کرم بھی محبت کو بڑا دھوکا رہا ہے کبھی تڑپا گیا ہے دل ترا غم کبھی دل کو سہارا دے گیا ہے شکایت تیری دل سے کرتے کرتے اچانک پیار تجھ پر آ گیا ہے جسے چونکا کے تو نے پھیر لی آنکھ وہ تیرا درد اب تک جاگتا ہے جہاں ہے موجزن رنگینئ حسن وہیں دل کا کنول لہرا رہا ہے گلابی ہوتی جاتی ہیں فضائیں کوئی اس رنگ سے شرما رہا ہے محبت تجھ سے تھی قبل از محبت کچھ ایسا یاد مجھ کو آ رہا ہے جدا آغاز سے انجام سے دور محبت اک مسلسل ماجرا ہے خدا حافظ مگر اب زندگی میں فقط اپنا سہارا رہ گیا ہے محبت میں فراقؔ اتنا نہ غم کر زمانے میں یہی ہوتا رہا ہے
diidaar-men-ik-tarfa-diidaar-nazar-aayaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
دیدار میں اک طرفہ دیدار نظر آیا ہر بار چھپا کوئی ہر بار نظر آیا چھالوں کو بیاباں بھی گلزار نظر آیا جب چھیڑ پر آمادہ ہر خار نظر آیا صبح شب ہجراں کی وہ چاک گریبانی اک عالم نیرنگی ہر تار نظر آیا ہو صبر کہ بیتابی امید کہ مایوسی نیرنگ محبت بھی بیکار نظر آیا جب چشم سیہ تیری تھی چھائی ہوئی دل پر اس ملک کا ہر خطہ تاتار نظر آیا تو نے بھی تو دیکھی تھی وہ جاتی ہوئی دنیا کیا آخری لمحوں میں بیمار نظر آیا غش کھا کے گرے موسیٰ اللہ ری مایوسی ہلکا سا وہ پردہ بھی دیوار نظر آیا ذرہ ہو کہ قطرہ ہو خم خانہ ہستی میں مخمور نظر آیا سرشار نظر آیا کیا کچھ نہ ہوا غم سے کیا کچھ نہ کیا غم نے اور یوں تو ہوا جو کچھ بے کار نظر آیا اے عشق قسم تجھ کو معمورۂ عالم کی کوئی غم فرقت میں غم خوار نظر آیا شب کٹ گئی فرقت کی دیکھا نہ فراقؔ آخر طول غم ہجراں بھی بے کار نظر آیا
jahaan-e-guncha-e-dil-kaa-faqat-chataknaa-thaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
جہان غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا اسی کی بوئے پریشاں وجود دنیا تھا یہ کہہ کے کل کوئی بے اختیار روتا تھا وہ اک نگاہ سہی کیوں کسی کو دیکھا تھا طنابیں کوچۂ قاتل کی کھنچتی جاتی تھیں شہید تیغ ادا میں بھی زور کتنا تھا بس اک جھلک نظر آئی اڑے کلیم کے ہوش بس اک نگاہ ہوئی خاک طور سینا تھا ہر اک کے ہاتھ فقط غفلتیں تھیں ہوش نما کہ اپنے آپ سے بیگانہ وار جینا تھا یہی ہوا کہ فریب امید و یاس مٹے وہ پا گئے ترے ہاتھوں ہمیں جو پانا تھا چمن میں غنچۂ گل کھلکھلا کے مرجھائے یہی وہ تھے جنہیں ہنس ہنس کے جان دینا تھا نگاہ مہر میں جس کی ہیں صد پیام فنا اسی کا عالم ایجاد و ناز بے جا تھا جہاں تو جلوہ نما تھا لرزتی تھی دنیا ترے جمال سے کیسا جلال پیدا تھا حیات و مرگ کے کچھ راز کھل گئے ہوں گے فسانۂ شب غم ورنہ دوستو کیا تھا شب عدم کا فسانہ گداز شمع حیات سوائے کیف فنا میرا ماجرا کیا تھا کچھ ایسی بات نہ تھی تیرا دور ہو جانا یہ اور بات کہ رہ رہ کے درد اٹھتا تھا نہ پوچھ سود و زیاں کاروبار الفت کے وگرنہ یوں تو نہ پانا تھا کچھ نہ کھوتا تھا لگاوٹیں وہ ترے حسن بے نیاز کی آہ میں تیری بزم سے جب ناامید اٹھا تھا تجھے ہم اے دل درد آشنا کہاں ڈھونڈیں ہم اپنے ہوش میں کب تھے کوئی جب اٹھا تھا عدم کا راز صدائے شکست ساز حیات حجاب زیست بھی کتنا لطیف پردا تھا یہ اضطراب و سکوں بھی تھی اک فریب حیات کہ اپنے حال سے بیگانہ وار جینا تھا کہاں پہ چوک ہوئی تیرے بے قراروں سے زمانہ دوسری کروٹ بدلنے والا تھا یہ کوئی یاد ہے یہ بھی ہے کوئی محویت ترے خیال میں تجھ کو بھی بھول جانا تھا کہاں کی چوٹ ابھر آئی حسن تاباں میں دم نظارہ وہ رخ درد سا چمکتا تھا نہ پوچھ رمز و کنایات چشم ساقی کے بس ایک حشر خموش انجمن میں برپا تھا چمن چمن تھی گل داغ عشق سے ہستی اسی کی نکہت برباد کا زمانہ تھا وہ تھا مرا دل خوں گشتہ جس کے مٹنے سے بہار باغ جناں تھی وجود دنیا تھا قسم ہے بادہ کشو چشم مست ساقی کی بتاؤ ہاتھ سے کیا جام مے سنبھلتا تھا وصال اس سے میں چاہوں کہاں یہ دل میرا یہ رو رہا ہوں کہ کیوں اس کو میں نے دیکھا تھا امید یاس بنی یاس پھر امید بنی اس اک نظر میں فریب نگاہ کتنا تھا یہ سوز و ساز نہاں تھا وہ سوز و ساز عیاں وصال و ہجر میں بس فرق تھا تو اتنا تھا شکست ساز چمن تھی بہار لالہ و گل خزاں مچلتی تھی غنچہ جہاں چٹکتا تھا ہر ایک سانس ہے تجدید یاد ایامے گزر گیا وہ زمانہ جسے گزرنا تھا نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا کسی کے صبر نے بے صبر دیا سب کو فراقؔ نزع میں کروٹ کوئی بدلتا تھا
daur-e-aagaaz-e-jafaa-dil-kaa-sahaaraa-niklaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
دور آغاز جفا دل کا سہارا نکلا حوصلہ کچھ نہ ہمارا نہ تمہارا نکلا تیرا نام آتے ہی سکتے کا تھا عالم مجھ پر جانے کس طرح یہ مذکور دوبارا نکلا ہوش جاتا ہے جگر جاتا ہے دل جاتا ہے پردے ہی پردے میں کیا تیرا اشارا نکلا ہے ترے کشف و کرامات کی دنیا قائل تجھ سے اے دل نہ مگر کام ہمارا نکلا کتنے سفاک سر قتل گہہ عالم تھے لاکھوں میں بس وہی اللہ کا پیارا نکلا عبرت انگیز ہے کیا اس کی جواں مرگی بھی ہائے وہ دل جو ہمارا نہ تمہارا نکلا عشق کی لو سے فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں رشک خورشید قیامت یہ شرارا نکلا سر بہ سر بے سر و ساماں جسے سمجھے تھے وہ دل رشک جمشید و کے و خسرو و دارا نکلا رونے والے ہوئے چپ ہجر کی دنیا بدلی شمع بے نور ہوئی صبح کا تارا نکلا انگلیاں اٹھیں فراقؔ وطن آوارہ پر آج جس سمت سے وہ درد کا مارا نکلا
ab-daur-e-aasmaan-hai-na-daur-e-hayaat-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے جینا جو آ گیا تو اجل بھی حیات ہے اور یوں تو عمر خضر بھی کیا بے ثبات ہے کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے ہستی کو جس نے زلزلہ ساماں بنا دیا وہ دل قرار پائے مقدر کی بات ہے یہ موشگافیاں ہیں گراں طبع عشق پر کس کو دماغ کاوش ذات و صفات ہے توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے زندان عقل تیری تو کیا کائنات ہے گردوں شرار برق دل بے قرار دیکھ جن سے یہ تیری تاروں بھری رات رات ہے گم ہو کے ہر جگہ ہیں زخود رفتگان عشق ان کی بھی اہل کشف و کرامات ذات ہے ہستی بجز فنائے مسلسل کے کچھ نہیں پھر کس لیے یہ فکر قرار و ثبات ہے اس جان دوستی کا خلوص نہاں نہ پوچھ جس کا ستم بھی غیرت صد التفات ہے یوں تو ہزار درد سے روتے ہیں بد نصیب تم دل دکھاؤ وقت مصیبت تو بات ہے عنوان غفلتوں کے ہیں قربت ہو یا وصال بس فرصت حیات فراقؔ ایک رات ہے
kamii-na-kii-tire-vahshii-ne-khaak-udaane-men-firaq-gorakhpuri-ghazals
کمی نہ کی ترے وحشی نے خاک اڑانے میں جنوں کا نام اچھلتا رہا زمانے میں فراقؔ دوڑ گئی روح سی زمانے میں کہاں کا درد بھرا تھا مرے فسانے میں جنوں سے بھول ہوئی دل پہ چوٹ کھانے میں فراقؔ دیر ابھی تھی بہار آنے میں وہ کوئی رنگ ہے جو اڑ نہ جائے اے گل تر وہ کوئی بو ہے جو رسوا نہ ہو زمانے میں وہ آستیں ہے کوئی جو لہو نہ دے نکلے وہ کوئی حسن ہے جھجکے جو رنگ لانے میں یہ گل کھلے ہیں کہ چوٹیں جگر کی ابھری ہیں نہاں بہار تھی بلبل ترے ترانے میں بیان شمع ہے حاصل یہی ہے جلنے کا فنا کی کیفیتیں دیکھ جھلملانے میں کسی کی حالت دل سن کے اٹھ گئیں آنکھیں کہ جان پڑ گئی حسرت بھرے فسانے میں اسی کی شرح ہے یہ اٹھتے درد کا عالم جو داستاں تھی نہاں تیرے آنکھ اٹھانے میں غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں ہمیں ہیں گل ہمیں بلبل ہمیں ہوائے چمن فراقؔ خواب یہ دیکھا ہے قید خانے میں
raat-bhii-niind-bhii-kahaanii-bhii-firaq-gorakhpuri-ghazals
رات بھی نیند بھی کہانی بھی ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی ایک پیغام زندگانی بھی عاشقی مرگ ناگہانی بھی اس ادا کا تری جواب نہیں مہربانی بھی سرگرانی بھی دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی منصب دل خوشی لٹانا ہے غم پنہاں کی پاسبانی بھی دل کو شعلوں سے کرتی ہے سیراب زندگی آگ بھی ہے پانی بھی شاد کاموں کو یہ نہیں توفیق دل غمگیں کی شادمانی بھی لاکھ حسن یقیں سے بڑھ کر ہے ان نگاہوں کی بد گمانی بھی تنگنائے دل ملول میں ہے بحر ہستی کی بے کرانی بھی عشق ناکام کی ہے پرچھائیں شادمانی بھی کامرانی بھی دیکھ دل کے نگار خانے میں زخم پنہاں کی ہے نشانی بھی خلق کیا کیا مجھے نہیں کہتی کچھ سنوں میں تری زبانی بھی آئے تاریخ عشق میں سو بار موت کے دور درمیانی بھی اپنی معصومیت کے پردے میں ہو گئی وہ نظر سیانی بھی دن کو سورج مکھی ہے وہ نو گل رات کو ہے وہ رات رانی بھی دل بد نام تیرے بارے میں لوگ کہتے ہیں اک کہانی بھی وضع کرتے کوئی نئی دنیا کہ یہ دنیا ہوئی پرانی بھی دل کو آداب بندگی بھی نہ آئے کر گئے لوگ حکمرانی بھی جور کم کم کا شکریہ بس ہے آپ کی اتنی مہربانی بھی دل میں اک ہوک بھی اٹھی اے دوست یاد آئی تری جوانی بھی سر سے پا تک سپردگی کی ادا ایک انداز ترکمانی بھی پاس رہنا کسی کا رات کی رات میہمانی بھی میزبانی بھی ہو نہ عکس جبین ناز کہ ہے دل میں اک نور کہکشانی بھی زندگی عین دید یار فراقؔ زندگی ہجر کی کہانی بھی
shaam-e-gam-kuchh-us-nigaah-e-naaz-kii-baaten-karo-firaq-gorakhpuri-ghazals
شام غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو یہ سکوت ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا خامشی میں کچھ شکست ساز کی باتیں کرو نکہت زلف پریشاں داستان شام غم صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو ہر رگ دل وجد میں آتی رہے دکھتی رہے یوں ہی اس کے جا و بے جا ناز کی باتیں کرو جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی اس سکوت راز اس آواز کی باتیں کرو عشق رسوا ہو چلا بے کیف سا بیزار سا آج اس کی نرگس غماز کی باتیں کرو نام بھی لینا ہے جس کا اک جہان رنگ و بو دوستو اس نو بہار ناز کی باتیں کرو کس لیے عذر تغافل کس لیے الزام عشق آج چرخ‌ تفرقہ پرواز کی باتیں کرو کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو جو حیات جاوداں ہے جو ہے مرگ ناگہاں آج کچھ اس ناز اس انداز کی باتیں کرو عشق بے پروا بھی اب کچھ ناشکیبا ہو چلا شوخئ حسن کرشہ ساز کی باتیں کرو جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراقؔ آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو
jaur-o-be-mehrii-e-igmaaz-pe-kyaa-rotaa-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
جور و بے مہری اغماض پہ کیا روتا ہے مہرباں بھی کوئی ہو جائے گا جلدی کیا ہے کھو دیا تم کو تو ہم پوچھتے پھرتے ہیں یہی جس کی تقدیر بگڑ جائے وہ کرتا کیا ہے دل کا اک کام جو ہوتا نہیں اک مدت سے تم ذرا ہاتھ لگا دو تو ہوا رکھا ہے نگۂ شوخ میں اور دل میں ہیں چوٹیں کیا کیا آج تک ہم نہ سمجھ پائے کہ جھگڑا کیا ہے عشق سے توبہ بھی ہے حسن سے شکوے بھی ہزار کہیے تو حضرت دل آپ کا منشا کیا ہے زینت دوش ترا نامۂ اعمال نہ ہو تیری دستار سے واعظ یہ لٹکتا کیا ہے ہاں ابھی وقت کا آئینہ دکھائے کیا کیا دیکھتے جاؤ زمانہ ابھی دیکھا کیا ہے نہ یگانے ہیں نہ بیگانے تری محفل میں نہ کوئی غیر یہاں ہے نہ کوئی اپنا ہے نگہ مست کو جنبش نہ ہوئی گو سر بزم کچھ تو اس جام لبا لب سے ابھی چھلکا ہے رات دن پھرتی ہے پلکوں کے جو سائے سائے دل مرا اس نگۂ ناز کا دیوانا ہے ہم جدائی سے بھی کچھ کام تو لے ہی لیں گے بے نیازانہ تعلق ہی چھٹا اچھا ہے ان سے بڑھ چڑھ کے تو اے دوست ہیں یادیں ان کی ناز و انداز و ادا میں تری رکھا کیا ہے ایسی باتوں سے بدلتی ہے کہیں فطرت حسن جان بھی دے دے اگر کوئی تو کیا ہوتا ہے تری آنکھوں کو بھی انکار تری زلف کو بھی کس نے یہ عشق کو دیوانہ بنا رکھا ہے دل ترا جان تری آہ تری اشک ترے جو ہے اے دوست وہ تیرا ہے ہمارا کیا ہے در دولت پہ دعائیں سی سنی ہیں میں نے دیکھیے آج فقیروں کا کدھر پھیرا ہے تجھ کو ہو جائیں گے شیطان کے درشن واعظ ڈال کر منہ کو گریباں میں کبھی دیکھا ہے ہم کہے دیتے ہیں چالوں میں نہ آؤ ان کی ثروت و جاہ کے عشووں سے بچو دھوکا ہے یہی گر آنکھ میں رہ جائے تو ہے چنگاری قطرۂ اشک جو بہہ جائے تو اک دریا ہے زلف شب گوں کے سوا نرگس جادو کے سوا دل کو کچھ اور بلاؤں نے بھی آ گھیرا ہے لب اعجاز کی سوگند یہ جھنکار تھی کیا تیری خاموشی کے مانند ابھی کچھ ٹوٹا ہے دار پر گاہ نظر گاہ سوئے شہر نگار کچھ سنیں ہم بھی تو اے عشق ارادہ کیا ہے آ کہ غربت کدۂ دہر میں جی بہلائیں اے دل اس جلوہ گہہ ناز میں کیا رکھا ہے زخم ہی زخم ہوں میں صبح کی مانند فراقؔ رات بھر ہجر کی لذت سے مزا لوٹا ہے
bastiyaan-dhuundh-rahii-hain-unhen-viiraanon-men-firaq-gorakhpuri-ghazals
بستیاں ڈھونڈھ رہی ہیں انہیں ویرانوں میں وحشتیں بڑھ گئیں حد سے ترے دیوانوں میں نگۂ ناز نہ دیوانوں نہ فرزانوں میں جان کار ایک وہی ہے مگر انجانوں میں بزم مے بے خود و بے تاب نہ کیوں ہو ساقی موج بادہ ہے کہ درد اٹھتا ہے پیمانوں میں میں تو میں چونک اٹھی ہے یہ فضائے خاموش یہ صدا کب کی سنی آتی ہے پھر کانوں میں سیر کر اجڑے دلوں کی جو طبیعت ہے اداس جی بہل جاتے ہیں اکثر انہیں ویرانوں میں وسعتیں بھی ہیں نہاں تنگئ دل میں غافل جی بہل جاتے ہیں اکثر انہیں میدانوں میں جان ایمان جنوں سلسلہ جنبان جنوں کچھ کشش ہائے نہاں جذب ہیں ویرانوں میں خندۂ صبح ازل تیرگیٔ شام ابد دونوں عالم ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں میں دیکھ جب عالم ہو کو تو نیا عالم ہے بستیاں بھی نظر آنے لگیں ویرانوں میں جس جگہ بیٹھ گئے آگ لگا کر اٹھے گرمیاں ہیں کچھ ابھی سوختہ سامانوں میں وحشتیں بھی نظر آتی ہیں سر پردۂ ناز دامنوں میں ہے یہ عالم نہ گریبانوں میں ایک رنگینیٔ ظاہر ہے گلستاں میں اگر ایک شادابیٔ پنہاں ہے بیابانوں میں جوہر غنچہ و گل میں ہے اک انداز جنوں کچھ بیاباں نظر آئے ہیں گریبانوں میں اب وہ رنگ چمن و خندۂ گل بھی نہ رہے اب وہ آثار جنوں بھی نہیں دیوانوں میں اب وہ ساقی کی بھی آنکھیں نہ رہیں رندوں میں اب وہ ساغر بھی چھلکتے نہیں مے خانوں میں اب وہ اک سوز نہانی بھی دلوں میں نہ رہا اب وہ جلوے بھی نہیں عشق کے کاشانوں میں اب نہ وہ رات جب امیدیں بھی کچھ تھیں تجھ سے اب نہ وہ بات غم ہجر کے افسانوں میں اب ترا کام ہے بس اہل وفا کا پانا اب ترا نام ہے بس عشق کے غم خانوں میں تا بہ کے وعدۂ موہوم کی تفصیل فراقؔ شب فرقت کہیں کٹتی ہے ان افسانوں میں
sar-men-saudaa-bhii-nahiin-dil-men-tamannaa-bhii-nahiin-firaq-gorakhpuri-ghazals
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں آج غفلت بھی ان آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا آج ہی خاطر بیمار شکیبا بھی نہیں بات یہ ہے کہ سکون دل وحشی کا مقام کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں تو نے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش آج محفل میں فراقؔ سخن آرا بھی نہیں یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانۂ عشق مگر اے دوست کچھ ایسوں کا ٹھکانا بھی نہیں فطرت حسن تو معلوم ہے تجھ کو ہمدم چارہ ہی کیا ہے بجز صبر سو ہوتا بھی نہیں منہ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں
firaaq-ik-naii-suurat-nikal-to-saktii-hai-firaq-gorakhpuri-ghazals
فراقؔ اک نئی صورت نکل تو سکتی ہے بقول اس آنکھ کے دنیا بدل تو سکتی ہے ترے خیال کو کچھ چپ سی لگ گئی ورنہ کہانیوں سے شب غم بہل تو سکتی ہے عروس دہر چلے کھا کے ٹھوکریں لیکن قدم قدم پہ جوانی ابل تو سکتی ہے پلٹ پڑے نہ کہیں اس نگاہ کا جادو کہ ڈوب کر یہ چھری کچھ اچھل تو سکتی ہے بجھے ہوئے نہیں اتنے بجھے ہوئے دل بھی فسردگی میں طبیعت مچل تو سکتی ہے اگر تو چاہے تو غم والے شادماں ہو جائیں نگاہ یار یہ حسرت نکل تو سکتی ہے اب اتنی بند نہیں غم کدوں کی بھی راہیں ہوائے کوچۂ محبوب چل تو سکتی ہے کڑے ہیں کوس بہت منزل محبت کے ملے نہ چھاؤں مگر دھوپ ڈھل تو سکتی ہے حیات لو تہ‌ دامان مرگ دے اٹھی ہوا کی راہ میں یہ شمع جل تو سکتی ہے کچھ اور مصلحت‌ جذب عشق ہے ورنہ کسی سے چھٹ کے طبیعت سنبھل تو سکتی ہے ازل سے سوئی ہے تقدیر‌‌ عشق موت کی نیند اگر جگائیے کروٹ بدل تو سکتی ہے غم زمانہ و سوز نہاں کی آنچ تو دے اگر نہ ٹوٹے یہ زنجیر گل تو سکتی ہے شریک شرم و حیا کچھ ہے بد گمانی‌ٔ حسن نظر اٹھا یہ جھجک سی نکل تو سکتی ہے کبھی وہ مل نہ سکے گی میں یہ نہیں کہتا وہ آنکھ آنکھ میں پڑ کر بدل تو سکتی ہے بدلتا جائے غم روزگار کا مرکز یہ چال گردش ایام چل تو سکتی ہے وہ بے نیاز سہی دل متاع ہیچ سہی مگر کسی کی جوانی مچل تو سکتی ہے تری نگاہ سہارا نہ دے تو بات ہے اور کہ گرتے گرتے بھی دنیا سنبھل تو سکتی ہے یہ زور و شور سلامت تری جوانی بھی بقول عشق کے سانچے میں ڈھل تو سکتی ہے سنا ہے برف کے ٹکڑے ہیں دل حسینوں کے کچھ آنچ پا کے یہ چاندی پگھل تو سکتی ہے ہنسی ہنسی میں لہو تھوکتے ہیں دل والے یہ سر زمین مگر لعل اگل تو سکتی ہے جو تو نے ترک محبت کو اہل دل سے کہا ہزار نرم ہو یہ بات کھل تو سکتی ہے ارے وہ موت ہو یا زندگی محبت پر نہ کچھ سہی کف افسوس مل تو سکتی ہے ہیں جس کے بل پہ کھڑے سرکشوں کو وہ دھرتی اگر کچل نہیں سکتی نگل تو سکتی ہے ہوئی ہے گرم لہو پی کے عشق کی تلوار یوں ہی جلائے جا یہ شاخ پھل تو سکتی ہے گزر رہی ہے دبے پاؤں عشق کی دیوی سبک روی سے جہاں کو مسل تو سکتی ہے حیات سے نگہہ واپسیں ہے کچھ مانوس مرے خیال سے آنکھوں میں پل تو سکتی ہے نہ بھولنا یہ ہے تاخیر حسن کی تاخیر فراقؔ آئی ہوئی موت ٹل تو سکتی ہے
koii-paigaam-e-mohabbat-lab-e-ejaaz-to-de-firaq-gorakhpuri-ghazals
کوئی پیغام محبت لب اعجاز تو دے موت کی آنکھ بھی کھل جائے گی آواز تو دے مقصد عشق ہم آہنگیٔ جزو و کل ہے درد ہی درد سہی دل بوئے دم ساز تو دے چشم مخمور کے عنوان نظر کچھ تو کھلیں دل رنجور دھڑکنے کا کچھ انداز تو دے اک ذرا ہو نشۂ حسن میں انداز خمار اک جھلک عشق کے انجام کی آغاز تو دے جو چھپائے نہ چھپے اور بتائے نہ بنے دل عاشق کو ان آنکھوں سے کوئی راز تو دے منتظر اتنی کبھی تھی نہ فضائے آفاق چھیڑنے ہی کو ہوں پر درد غزل ساز تو دے ہم اسیران قفس آگ لگا سکتے ہیں فرصت نغمہ کبھی حسرت پرواز تو دے عشق اک بار مشیت کو بدل سکتا ہے عندیہ اپنا مگر کچھ نگہ ناز تو دے قرب و دیدار تو معلوم کسی کا پھر بھی کچھ پتہ سا فلک تفرقہ پرداز تو دے منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں ابلق دہر کچھ انداز تگ و تاز تو دے کان سے ہم تو فراقؔ آنکھ کا لیتے ہیں کام آج چھپ کر کوئی آواز پر آواز تو دے
hijr-o-visaal-e-yaar-kaa-parda-uthaa-diyaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
ہجر و وصال یار کا پردہ اٹھا دیا خود بڑھ کے عشق نے مجھے میرا پتا دیا گرد و غبار ہستئ فانی اڑا دیا اے کیمیائے عشق مجھے کیا بنا دیا وہ سامنے ہے اور نظر سے چھپا دیا اے عشق‌ بے حجاب مجھے کیا دکھا دیا وہ شان خامشی کہ بہاریں ہیں منتظر وہ رنگ گفتگو کہ گلستاں بنا دیا دم لے رہی تھیں حسن کی جب سحر‌ کاریاں ان وقفہ‌ ہائے کفر کو ایماں بنا دیا معلوم کچھ مجھی کو ہیں ان کی روانیاں جن قطرہ ہائے اشک کو دریا بنا دیا اک برق بے قرار تھی تمکین حسن بھی جس وقت عشق کو غم صبر آزما دیا ساقی مجھے بھی یاد ہیں وہ تشنہ کامیاں جن کو حریف ساغر و مینا بنا دیا معلوم ہے حقیقت غم ہائے روزگار دنیا کو تیرے درد نے دنیا بنا دیا اے شوخئ نگاہ کرم مدتوں کے بعد خواب گران غم سے مجھے کیوں جگا دیا کچھ شورشیں تغافل پنہاں میں تھیں جنہیں ہنگامہ زار حشر تمنا بنا دیا بڑھتا ہی جا رہا ہے جمال نظر فریب حسن نظر کو حسن خود آرا بنا دیا پھر دیکھنا نگاہ لڑی کس سے عشق کی گر حسن نے حجاب تغافل اٹھا دیا جب خون ہو چکا دل ہستی‌ٔ اعتبار کچھ درد بچ رہے جنہیں انساں بنا دیا گم کروۂ‌ وفور‌ غم انتظار ہوں تو کیا چھپا کہ مجھ کو مجھی سے چھپا دیا رات اب حریف صبح قیامت ہی کیوں نہ ہو جو کچھ بھی ہو اس آنکھ کو اب تو جگا دیا اب میں ہوں اور لطف و کرم کے تکلفات یہ کیوں حجاب رنجش بے جا بنا دیا تھی یوں تو شام ہجر مگر پچھلی رات کو وہ درد اٹھا فراقؔ کہ میں مسکرا دیا
kuchh-ishaare-the-jinhen-duniyaa-samajh-baithe-the-ham-firaq-gorakhpuri-ghazals
کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم رفتہ رفتہ غیر اپنی ہی نظر میں ہو گئے واہ ری غفلت تجھے اپنا سمجھ بیٹھے تھے ہم ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم پردۂ آزردگی میں تھی وہ جان التفات جس ادا کو رنجش بے جا سمجھ بیٹھے تھے ہم کیا کہیں الفت میں راز بے حسی کیوں کر کھلا ہر نظر کو تیری درد افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم بے نیازی کو تری پایا سراسر سوز و درد تجھ کو اک دنیا سے بیگانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم انقلاب پے بہ پے ہر گردش و ہر دور میں اس زمین و آسماں کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم بھول بیٹھی وہ نگاہ ناز عہد دوستی اس کو بھی اپنی طبیعت کا سمجھ بیٹھے تھے ہم صاف الگ ہم کو جنون عاشقی نے کر دیا خود کو تیرے درد کا پردا سمجھ بیٹھے تھے ہم کان بجتے ہیں محبت کے سکوت ناز کو داستاں کا ختم ہو جانا سمجھ بیٹھے تھے ہم باتوں باتوں میں پیام مرگ بھی آ ہی گیا ان نگاہوں کو حیات افزا سمجھ بیٹھے تھے ہم اب نہیں تاب سپاس حسن اس دل کو جسے بے قرار شکوۂ بیجا سمجھ بیٹھے تھے ہم ایک دنیا درد کی تصویر نکلی عشق کو کوہکن اور قیس کا قصہ سمجھ بیٹھے تھے ہم رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہوتا چلا خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم حسن کو اک حسن ہی سمجھے نہیں اور اے فراقؔ مہرباں نا مہرباں کیا کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم
zer-o-bam-se-saaz-e-khilqat-ke-jahaan-bantaa-gayaa-firaq-gorakhpuri-ghazals
زیر و بم سے ساز خلقت کے جہاں بنتا گیا یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا داستان جور بے حد خون سے لکھتا رہا قطرہ قطرہ اشک غم کا بے کراں بنتا گیا عشق تنہا سے ہوئیں آباد کتنی منزلیں اک مسافر کارواں در کارواں بنتا گیا میں ترے جس غم کو اپنا جانتا تھا وہ بھی تو زیب عنوان حدیث دیگراں بنتا گیا بات نکلے بات سے جیسے وہ تھا تیرا بیاں نام تیرا داستاں در داستاں بنتا گیا ہم کو ہے معلوم سب روداد علم و فلسفہ ہاں ہر ایمان و یقیں وہم و گماں بنتا گیا میں کتاب دل میں اپنا حال غم لکھتا رہا ہر ورق اک باب تاریخ جہاں بنتا گیا بس اسی کی ترجمانی ہے مرے اشعار میں جو سکوت راز رنگیں داستاں بنتا گیا میں نے سونپا تھا تجھے اک کام ساری عمر میں وہ بگڑتا ہی گیا اے دل کہاں بنتا گیا واردات دل کو دل ہی میں جگہ دیتے رہے ہر حساب غم حساب دوستاں بنتا گیا میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں جو بھی میں کہتا گیا حسن بیاں بنتا گیا وقت کے ہاتھوں یہاں کیا کیا خزانے لٹ گئے ایک تیرا غم کہ گنج شائیگاں بنتا گیا سر زمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ قافلے بستے گئے ہندوستاں بنتا گیا
jaagne-vaalo-taa-ba-sahar-khaamosh-raho-habib-jalib-ghazals
جاگنے والو تا بہ سحر خاموش رہو کل کیا ہوگا کس کو خبر خاموش رہو کس نے سحر کے پاؤں میں زنجیریں ڈالیں ہو جائے گی رات بسر خاموش رہو شاید چپ رہنے میں عزت رہ جائے چپ ہی بھلی اے اہل نظر خاموش رہو قدم قدم پر پہرے ہیں ان راہوں میں دار و رسن کا ہے یہ نگر خاموش رہو یوں بھی کہاں بے تابئ دل کم ہوتی ہے یوں بھی کہاں آرام مگر خاموش رہو شعر کی باتیں ختم ہوئیں اس عالم میں کیسا جوشؔ اور کس کا جگرؔ خاموش رہو
ham-ne-dil-se-tujhe-sadaa-maanaa-habib-jalib-ghazals
ہم نے دل سے تجھے سدا مانا تو بڑا تھا تجھے بڑا مانا میرؔ و غالبؔ کے بعد انیسؔ کے بعد تجھ کو مانا بڑا بجا مانا تو کہ دیوانۂ صداقت تھا تو نے بندے کو کب خدا مانا تجھ کو پروا نہ تھی زمانے کی تو نے دل ہی کا ہر کہا مانا تجھ کو خود پہ تھا اعتماد اتنا خود ہی کو تو نہ رہنما مانا کی نہ شب کی کبھی پذیرائی صبح کو لائق ثنا مانا ہنس دیا سطح ذہن عالم پر جب کسی بات کا برا مانا یوں تو شاعر تھے اور بھی اے جوشؔ ہم نے تجھ سا نہ دوسرا مانا
tum-se-pahle-vo-jo-ik-shakhs-yahaan-takht-nashiin-thaa-habib-jalib-ghazals
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالبؔ نہیں بھولے تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا
afsos-tumhen-car-ke-shiishe-kaa-huaa-hai-habib-jalib-ghazals
افسوس تمہیں کار کے شیشے کا ہوا ہے پروا نہیں اک ماں کا جو دل ٹوٹ گیا ہے ہوتا ہے اثر تم پہ کہاں نالۂ غم کا برہم جو ہوئی بزم طرب اس کا گلا ہے فرعون بھی نمرود بھی گزرے ہیں جہاں میں رہتا ہے یہاں کون یہاں کون رہا ہے تم ظلم کہاں تک تہ افلاک کرو گے یہ بات نہ بھولو کہ ہمارا بھی خدا ہے آزادئ انساں کے وہیں پھول کھلیں گے جس جا پہ ظہیر آج ترا خون گرا ہے تا چند رہے گی یہ شب غم کی سیاہی رستہ کوئی سورج کا کہیں روک سکا ہے تو آج کا شاعر ہے تو کر میری طرح بات جیسے مرے ہونٹوں پہ مرے دل کی صدا ہے
dushmanon-ne-jo-dushmanii-kii-hai-habib-jalib-ghazals
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے خامشی پر ہیں لوگ زیر عتاب اور ہم نے تو بات بھی کی ہے مطمئن ہے ضمیر تو اپنا بات ساری ضمیر ہی کی ہے اپنی تو داستاں ہے بس اتنی غم اٹھائے ہیں شاعری کی ہے اب نظر میں نہیں ہے ایک ہی پھول فکر ہم کو کلی کلی کی ہے پا سکیں گے نہ عمر بھر جس کو جستجو آج بھی اسی کی ہے جب مہ و مہر بجھ گئے جالبؔ ہم نے اشکوں سے روشنی کی ہے
sher-hotaa-hai-ab-mahiinon-men-habib-jalib-ghazals
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں زندگی ڈھل گئی مشینوں میں پیار کی روشنی نہیں ملتی ان مکانوں میں ان مکینوں میں دیکھ کر دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ سانپ ہوتے ہیں آستینوں میں قہر کی آنکھ سے نہ دیکھ ان کو دل دھڑکتے ہیں آبگینوں میں آسمانوں کی خیر ہو یا رب اک نیا عزم ہے زمینوں میں وہ محبت نہیں رہی جالبؔ ہم صفیروں میں ہم نشینوں میں
aur-sab-bhuul-gae-harf-e-sadaaqat-likhnaa-habib-jalib-ghazals-1
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا نہ صلے کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو حق میں لوگوں کے ہماری تو ہے عادت لکھنا ہم نے جو بھول کے بھی شہہ کا قصیدہ نہ لکھا شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا اس سے بڑھ کر مری تحسین بھلا کیا ہوگی پڑھ کے نا خوش ہیں مرا صاحب ثروت لکھنا دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہہ کے مصاحب جالبؔ رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا
dil-vaalo-kyuun-dil-sii-daulat-yuun-be-kaar-lutaate-ho-habib-jalib-ghazals
دل والو کیوں دل سی دولت یوں بیکار لٹاتے ہو کیوں اس اندھیاری بستی میں پیار کی جوت جگاتے ہو تم ایسا نادان جہاں میں کوئی نہیں ہے کوئی نہیں پھر ان گلیوں میں جاتے ہو پگ پگ ٹھوکر کھاتے ہو سندر کلیو کومل پھولو یہ تو بتاؤ یہ تو کہو آخر تم میں کیا جادو ہے کیوں من میں بس جاتے ہو یہ موسم رم جھم کا موسم یہ برکھا یہ مست فضا ایسے میں آؤ تو جانیں ایسے میں کب آتے ہو ہم سے روٹھ کے جانے والو اتنا بھید بتا جاؤ کیوں نت راتو کو سپنوں میں آتے ہو من جاتے ہو چاند ستاروں کے جھرمٹ میں پھولوں کی مسکاہٹ میں تم چھپ چھپ کر ہنستے ہو تم روپ کا مان بڑھاتے ہو چلتے پھرتے روشن رستے تاریکی میں ڈوب گئے سو جاؤ اب جالبؔ تم بھی کیوں آنکھیں سلگاتے ہو
ab-terii-zaruurat-bhii-bahut-kam-hai-mirii-jaan-habib-jalib-ghazals
اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں اب شوق کا کچھ اور ہی عالم ہے مری جاں اب تذکرۂ خندۂ گل بار ہے جی پر جاں وقف غم گریہ شبنم ہے مری جاں رخ پر ترے بکھری ہوئی یہ زلف سیہ تاب تصویر پریشانئ عالم ہے مری جاں یہ کیا کہ تجھے بھی ہے زمانے سے شکایت یہ کیا کہ تری آنکھ بھی پر نم ہے مری جاں ہم سادہ دلوں پر یہ شب غم کا تسلط مایوس نہ ہو اور کوئی دم ہے مری جاں یہ تیری توجہ کا ہے اعجاز کہ مجھ سے ہر شخص ترے شہر کا برہم ہے مری جاں اے نزہت مہتاب ترا غم ہے مری زیست اے نازش خورشید ترا غم ہے مری جاں
chuur-thaa-zakhmon-se-dil-zakhmii-jigar-bhii-ho-gayaa-habib-jalib-ghazals
چور تھا زخموں سے دل زخمی جگر بھی ہو گیا اس کو روتے تھے کہ سونا یہ نگر بھی ہو گیا لوگ اسی صورت پریشاں ہیں جدھر بھی دیکھیے اور وہ کہتے ہیں کوہ غم تو سر بھی ہو گیا بام و در پر ہے مسلط آج بھی شام الم یوں تو ان گلیوں سے خورشید سحر بھی ہو گیا اس ستم گر کی حقیقت ہم پہ ظاہر ہو گئی ختم خوش فہمی کی منزل کا سفر بھی ہو گیا
bate-rahoge-to-apnaa-yuunhii-bahegaa-lahuu-habib-jalib-ghazals
بٹے رہو گے تو اپنا یوں ہی بہے گا لہو ہوئے نہ ایک تو منزل نہ بن سکے گا لہو ہو کس گھمنڈ میں اے لخت لخت دیدہ ورو تمہیں بھی قاتل محنت کشاں کہے گا لہو اسی طرح سے اگر تم انا پرست رہے خود اپنا راہنما آپ ہی بنے گا لہو سنو تمہارے گریبان بھی نہیں محفوظ ڈرو تمہارا بھی اک دن حساب لے گا لہو اگر نہ عہد کیا ہم نے ایک ہونے کا غنیم سب کا یوں ہی بیچتا رہے گا لہو کبھی کبھی مرے بچے بھی مجھ سے پوچھتے ہیں کہاں تک اور تو خشک اپنا ہی کرے گا لہو صدا کہا یہی میں نے قریب تر ہے وہ دور کہ جس میں کوئی ہمارا نہ پی سکے گا لہو
vahii-haalaat-hain-faqiiron-ke-habib-jalib-ghazals
وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر اور حلقے ہیں سب امیروں کے ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے وہی اہل وفا کی صورت حال وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے سازشیں ہیں وہی خلاف عوام مشورے ہیں وہی مشیروں کے بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی وہی دن رات ہیں اسیروں کے
us-rauunat-se-vo-jiite-hain-ki-marnaa-hii-nahiin-habib-jalib-ghazals
اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں یوں مہ و انجم کی وادی میں اڑے پھرتے ہیں وہ خاک کے ذروں پہ جیسے پاؤں دھرنا ہی نہیں ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں کیا علاج اس کا اگر ہو مدعا ان کا یہی اہتمام رنگ و بو گلشن میں کرنا ہی نہیں ظلم سے ہیں برسر پیکار آزادی پسند ان پہاڑوں میں جہاں پر کوئی جھرنا ہی نہیں دل بھی ان کے ہیں سیہ خوراک زنداں کی طرح ان سے اپنا غم بیاں اب ہم کو کرنا ہی نہیں انتہا کر لیں ستم کی لوگ ابھی ہیں خواب میں جاگ اٹھے جب لوگ تو ان کو ٹھہرنا ہی نہیں
khuub-aazaadii-e-sahaafat-hai-habib-jalib-ghazals
خوب آزادئ صحافت ہے نظم لکھنے پہ بھی قیامت ہے دعویٰ جمہوریت کا ہے ہر آن یہ حکومت بھی کیا حکومت ہے دھاندلی دھونس کی ہے پیداوار سب کو معلوم یہ حقیقت ہے خوف کے ذہن و دل پہ سائے ہیں کس کی عزت یہاں سلامت ہے کبھی جمہوریت یہاں آئے یہی جالبؔ ہماری حسرت ہے
tire-maathe-pe-jab-tak-bal-rahaa-hai-habib-jalib-ghazals
ترے ماتھے پہ جب تک بل رہا ہے اجالا آنکھ سے اوجھل رہا ہے سماتے کیا نظر میں چاند تارے تصور میں ترا آنچل رہا ہے تری شان تغافل کو خبر کیا کوئی تیرے لیے بے کل رہا ہے شکایت ہے غم دوراں کو مجھ سے کہ دل میں کیوں ترا غم پل رہا ہے تعجب ہے ستم کی آندھیوں میں چراغ دل ابھی تک جل رہا ہے لہو روئیں گی مغرب کی فضائیں بڑی تیزی سے سورج ڈھل رہا ہے زمانہ تھک گیا جالبؔ ہی تنہا وفا کے راستے پر چل رہا ہے
zarre-hii-sahii-koh-se-takraa-to-gae-ham-habib-jalib-ghazals
ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم دل لے کے سر عرصۂ غم آ تو گئے ہم اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا روداد وفا دار پہ دہرا تو گئے ہم کہتے تھے جو اب کوئی نہیں جاں سے گزرتا لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم جاں اپنی گنوا کر کبھی گھر اپنا جلا کر دل ان کا ہر اک طور سے بہلا تو گئے ہم کچھ اور ہی عالم تھا پس چہرۂ یاراں رہتا جو یونہی راز اسے پا تو گئے ہم اب سوچ رہے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے پھر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا تو گئے ہم اٹھیں کہ نہ اٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالبؔ لوگوں کو سر دار نظر آ تو گئے ہم
kaun-bataae-kaun-sujhaae-kaun-se-des-sidhaar-gae-habib-jalib-ghazals
کون بتائے کون سجھائے کون سے دیس سدھار گئے ان کا رستہ تکتے تکتے نین ہمارے ہار گئے کانٹوں کے دکھ سہنے میں تسکین بھی تھی آرام بھی تھا ہنسنے والے بھولے بھالے پھول چمن کے مار گئے ایک لگن کی بات ہے جیون ایک لگن ہی جیون ہے پوچھ نہ کیا کھویا کیا پایا کیا جیتے کیا ہار گئے آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے جب بھی لوٹے پیار سے لوٹے پھول نہ پا کر گلشن میں بھونرے امرت رس کی دھن میں پل پل سو سو بار گئے ہم سے پوچھو ساحل والو کیا بیتی دکھیاروں پر کھیون ہارے بیچ بھنور میں چھوڑ کے جب اس پار گئے
hujuum-dekh-ke-rasta-nahiin-badalte-ham-habib-jalib-ghazals
ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم ہزار زیر قدم راستہ ہو خاروں کا جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم اسی لیے تو نہیں معتبر زمانے میں کہ رنگ صورت دنیا نہیں بدلتے ہم ہوا کو دیکھ کے جالبؔ مثال ہم عصراں بجا یہ زعم ہمارا نہیں بدلتے ہم
dil-par-jo-zakhm-hain-vo-dikhaaen-kisii-ko-kyaa-habib-jalib-ghazals
دل پر جو زخم ہیں وہ دکھائیں کسی کو کیا اپنا شریک درد بنائیں کسی کو کیا ہر شخص اپنے اپنے غموں میں ہے مبتلا زنداں میں اپنے ساتھ رلائیں کسی کو کیا بچھڑے ہوئے وہ یار وہ چھوڑے ہوئے دیار رہ رہ کے ہم کو یاد جو آئیں کسی کو کیا رونے کو اپنے حال پہ تنہائی ہے بہت اس انجمن میں خود پہ ہنسائیں کسی کو کیا وہ بات چھیڑ جس میں جھلکتا ہو سب کا غم یادیں کسی کی تجھ کو ستائیں کسی کو کیا سوئے ہوئے ہیں لوگ تو ہوں گے سکون سے ہم جاگنے کا روگ لگائیں کسی کو کیا جالبؔ نہ آئے گا کوئی احوال پوچھنے دیں شہر بے حساں میں صدائیں کسی کو کیا
apnon-ne-vo-ranj-diye-hain-begaane-yaad-aate-hain-habib-jalib-ghazals
اپنوں نے وہ رنج دئے ہیں بیگانے یاد آتے ہیں دیکھ کے اس بستی کی حالت ویرانے یاد آتے ہیں اس نگری میں قدم قدم پہ سر کو جھکانا پڑتا ہے اس نگری میں قدم قدم پر بت خانے یاد آتے ہیں آنکھیں پر نم ہو جاتی ہیں غربت کے صحراؤں میں جب اس رم جھم کی وادی کے افسانے یاد آتے ہیں ایسے ایسے درد ملے ہیں نئے دیاروں میں ہم کو بچھڑے ہوئے کچھ لوگ پرانے یارانے یاد آتے ہیں جن کے کارن آج ہمارے حال پہ دنیا ہستی ہے کتنے ظالم چہرے جانے پہچانے یاد آتے ہیں یوں نہ لٹی تھی گلیوں دولت اپنے اشکوں کی روتے ہیں تو ہم کو اپنے غم خانے یاد آتے ہیں کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالبؔ چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں
faiz-aur-faiz-kaa-gam-bhuulne-vaalaa-hai-kahiin-habib-jalib-ghazals
فیضؔ اور فیضؔ کا غم بھولنے والا ہے کہیں موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں ہم سے جس وقت نے وہ شاہ سخن چھین لیا ہم کو وہ وقت الم بھولنے والا ہے کہیں ترے اشک اور بھی چمکائیں گی یادیں اس کی ہم کو وہ دیدۂ نم بھولنے والا ہے کہیں کبھی زنداں میں کبھی دور وطن سے اے دوست جو کیا اس نے رقم بھولنے والا ہے کہیں آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالبؔ یہ مقدر کا ستم بھولنے والا ہے کہیں
jiivan-mujh-se-main-jiivan-se-sharmaataa-huun-habib-jalib-ghazals
جیون مجھ سے میں جیون سے شرماتا ہوں مجھ سے آگے جانے والو میں آتا ہوں جن کی یادوں سے روشن ہیں میری آنکھیں دل کہتا ہے ان کو بھی میں یاد آتا ہوں سر سے سانسوں کا ناتا ہے توڑوں کیسے تم جلتے ہو کیوں جیتا ہوں کیوں گاتا ہوں تم اپنے دامن میں ستارے بیٹھ کر ٹانکو اور میں نئے برن لفظوں کو پہناتا ہوں جن خوابوں کو دیکھ کے میں نے جینا سیکھا ان کے آگے ہر دولت کو ٹھکراتا ہوں زہر اگلتے ہیں جب مل کر دنیا والے میٹھے بولوں کی وادی میں کھو جاتا ہوں جالبؔ میرے شعر سمجھ میں آ جاتے ہیں اسی لیے کم رتبہ شاعر کہلاتا ہوں
aag-hai-phailii-huii-kaalii-ghataaon-kii-jagah-habib-jalib-ghazals
آگ ہے پھیلی ہوئی کالی گھٹاؤں کی جگہ بد دعائیں ہیں لبوں پر اب دعاؤں کی جگہ انتخاب اہل گلشن پر بہت روتا ہے دل دیکھ کر زاغ و زغن کو خوش نواؤں کی جگہ کچھ بھی ہوتا پر نہ ہوتے پارہ پارہ جسم و جاں راہزن ہوتے اگر ان رہنماؤں کی جگہ لٹ گئی اس دور میں اہل قلم کی آبرو بک رہے ہیں اب صحافی بیسواؤں کی جگہ کچھ تو آتا ہم کو بھی جاں سے گزرنے کا مزہ غیر ہوتے کاش جالبؔ آشناؤں کی جگہ
kabhii-to-mehrbaan-ho-kar-bulaa-len-habib-jalib-ghazals
کبھی تو مہرباں ہو کر بلا لیں یہ مہوش ہم فقیروں کی دعا لیں نہ جانے پھر یہ رت آئے نہ آئے جواں پھولوں کی کچھ خوشبو چرا لیں بہت روئے زمانے کے لیے ہم ذرا اپنے لیے آنسو بہا لیں ہم ان کو بھولنے والے نہیں ہیں سمجھتے ہیں غم دوراں کی چالیں ہماری بھی سنبھل جائے گی حالت وہ پہلے اپنی زلفیں تو سنبھالیں نکلنے کو ہے وہ مہتاب گھر سے ستاروں سے کہو نظریں جھکا لیں ہم اپنے راستے پر چل رہے ہیں جناب شیخ اپنا راستہ لیں زمانہ تو یوں ہی روٹھا رہے گا چلو جالبؔ انہیں چل کر منا لیں
is-shahr-e-kharaabii-men-gam-e-ishq-ke-maare-habib-jalib-ghazals
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے تابندہ و پایندہ ہیں ذروں کے سہارے حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے
na-dagmagaae-kabhii-ham-vafaa-ke-raste-men-habib-jalib-ghazals
نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں کسے لگائے گلے اور کہاں کہاں ٹھہرے ہزار غنچہ و گل ہیں صبا کے رستے میں خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں کہیں سلاسل تسبیح اور کہیں زنار بچھے ہیں دام بہت مدعا کے رستے میں ابھی وہ منزل فکر و نظر نہیں آئی ہے آدمی ابھی جرم و سزا کے رستے میں ہیں آج بھی وہی دار و رسن وہی زنداں ہر اک نگاہ رموز آشنا کے رستے میں یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں مٹا سکے نہ کوئی سیل انقلاب جنہیں وہ نقش چھوڑے ہیں ہم نے وفا کے رستے میں زمانہ ایک سا جالبؔ سدا نہیں رہتا چلیں گے ہم بھی کبھی سر اٹھا کے رستے میں
vo-dekhne-mujhe-aanaa-to-chaahtaa-hogaa-habib-jalib-ghazals
وہ دیکھنے مجھے آنا تو چاہتا ہوگا مگر زمانے کی باتوں سے ڈر گیا ہوگا اسے تھا شوق بہت مجھ کو اچھا رکھنے کا یہ شوق اوروں کو شاید برا لگا ہوگا کبھی نہ حد ادب سے بڑھے تھے دیدہ و دل وہ مجھ سے کس لیے کسی بات پر خفا ہوگا مجھے گمان ہے یہ بھی یقین کی حد تک کسی سے بھی نہ وہ میری طرح ملا ہوگا کبھی کبھی تو ستاروں کی چھاؤں میں وہ بھی مرے خیال میں کچھ دیر جاگتا ہوگا وہ اس کا سادہ و معصوم والہانہ پن کسی بھی جگ میں کوئی دیوتا بھی کیا ہوگا نہیں وہ آیا تو جالبؔ گلہ نہ کر اس کا نہ جانے کیا اسے درپیش مسئلہ ہوگا
ye-soch-kar-na-maail-e-fariyaad-ham-hue-habib-jalib-ghazals
یہ سوچ کر نہ مائل فریاد ہم ہوئے آباد کب ہوئے تھے کہ برباد ہم ہوئے ہوتا ہے شاد کام یہاں کون با ضمیر ناشاد ہم ہوئے تو بہت شاد ہم ہوئے پرویز کے جلال سے ٹکرائے ہم بھی ہیں یہ اور بات ہے کہ نہ فرہاد ہم ہوئے کچھ ایسے بھا گئے ہمیں دنیا کے درد و غم کوئے بتاں میں بھولی ہوئی یاد ہم ہوئے جالبؔ تمام عمر ہمیں یہ گماں رہا اس زلف کے خیال سے آزاد ہم ہوئے
ye-jo-shab-ke-aivaanon-men-ik-halchal-ik-hashr-bapaa-hai-habib-jalib-ghazals
یہ جو شب کے ایوانوں میں اک ہلچل اک حشر بپا ہے یہ جو اندھیرا سمٹ رہا ہے یہ جو اجالا پھیل رہا ہے یہ جو ہر دکھ سہنے والا دکھ کا مداوا جان گیا ہے مظلوموں مجبوروں کا غم یہ جو مرے شعروں میں ڈھلا ہے یہ جو مہک گلشن گلشن ہے یہ جو چمک عالم عالم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے مارکسزم ہے
us-ne-jab-hans-ke-namaskaar-kiyaa-habib-jalib-ghazals
اس نے جب ہنس کے نمسکار کیا مجھ کو انسان سے اوتار کیا دشت غربت میں دل ویراں نے یاد جمنا کو کئی بار کیا پیار کی بات نہ پوچھو یارو ہم نے کس کس سے نہیں پیار کیا کتنی خوابیدہ تمناؤں کو اس کی آواز نے بیدار کیا ہم پجاری ہیں بتوں کے جالبؔ ہم نے کعبے میں بھی اقرار کیا
ik-shakhs-baa-zamiir-miraa-yaar-mushafii-habib-jalib-ghazals
اک شخص با ضمیر مرا یار مصحفیؔ میری طرح وفا کا پرستار مصحفیؔ رہتا تھا کج کلاہ امیروں کے درمیاں یکسر لئے ہوئے مرا کردار مصحفیؔ دیتے ہیں داد غیر کو کب اہل لکھنؤ کب داد کا تھا ان سے طلب گار مصحفیؔ نا قدریٔ جہاں سے کئی بار آ کے تنگ اک عمر شعر سے رہا بیزار مصحفیؔ دربار میں تھا بار کہاں اس غریب کو برسوں مثال میرؔ پھرا خوار مصحفیؔ میں نے بھی اس گلی میں گزاری ہے رو کے عمر ملتا ہے اس گلی میں کسے پیار مصحفیؔ
log-giiton-kaa-nagar-yaad-aayaa-habib-jalib-ghazals
لوگ گیتوں کا نگر یاد آیا آج پردیس میں گھر یاد آیا جب چلے آئے چمن زار سے ہم التفات گل تر یاد آیا تیری بیگانہ نگاہی سر شام یہ ستم تا بہ سحر یاد آیا ہم زمانے کا ستم بھول گئے جب ترا لطف نظر یاد آیا تو بھی مسرور تھا اس شب سر بزم اپنے شعروں کا اثر یاد آیا پھر ہوا درد تمنا بیدار پھر دل‌ خاک‌ بسر یاد آیا ہم جسے بھول چکے تھے جالبؔ پھر وہی راہ گزر یاد آیا
baaten-to-kuchh-aisii-hain-ki-khud-se-bhii-na-kii-jaaen-habib-jalib-ghazals
باتیں تو کچھ ایسی ہیں کہ خود سے بھی نہ کی جائیں سوچا ہے خموشی سے ہر اک زہر کو پی جائیں اپنا تو نہیں کوئی وہاں پوچھنے والا اس بزم میں جانا ہے جنہیں اب تو وہی جائیں اب تجھ سے ہمیں کوئی تعلق نہیں رکھنا اچھا ہو کہ دل سے تری یادیں بھی چلی جائیں اک عمر اٹھائے ہیں ستم غیر کے ہم نے اپنوں کی تو اک پل بھی جفائیں نہ سہی جائیں جالبؔ غم دوراں ہو کہ یاد رخ جاناں تنہا مجھے رہنے دیں مرے دل سے سبھی جائیں
dil-e-pur-shauq-ko-pahluu-men-dabaae-rakkhaa-habib-jalib-ghazals
دل پر شوق کو پہلو میں دبائے رکھا تجھ سے بھی ہم نے ترا پیار چھپائے رکھا چھوڑ اس بات کو اے دوست کہ تجھ سے پہلے ہم نے کس کس کو خیالوں میں بسائے رکھا غیر ممکن تھی زمانے کے غموں سے فرصت پھر بھی ہم نے ترا غم دل میں بسائے رکھا پھول کو پھول نہ کہتے سو اسے کیا کہتے کیا ہوا غیر نے کالر پہ سجائے رکھا جانے کس حال میں ہیں کون سے شہروں میں ہیں وہ زندگی اپنی جنہیں ہم نے بنائے رکھا ہائے کیا لوگ تھے وہ لوگ پری چہرہ لوگ ہم نے جن کے لیے دنیا کو بھلائے رکھا اب ملیں بھی تو نہ پہچان سکیں ہم ان کو جن کو اک عمر خیالوں میں بسائے رکھا
kuchh-log-khayaalon-se-chale-jaaen-to-soen-habib-jalib-ghazals
کچھ لوگ خیالوں سے چلے جائیں تو سوئیں بیتے ہوئے دن رات نہ یاد آئیں تو سوئیں چہرے جو کبھی ہم کو دکھائی نہیں دیں گے آ آ کے تصور میں نہ تڑپائیں تو سوئیں برسات کی رت کے وہ طرب ریز مناظر سینے میں نہ اک آگ سی بھڑکائیں تو سوئیں صبحوں کے مقدر کو جگاتے ہوئے مکھڑے آنچل جو نگاہوں میں نہ لہرائیں تو سوئیں محسوس یہ ہوتا ہے ابھی جاگ رہے ہیں لاہور کے سب یار بھی سو جائیں تو سوئیں
kam-puraanaa-bahut-nayaa-thaa-firaaq-habib-jalib-ghazals
کم پرانا بہت نیا تھا فراق اک عجب رمز آشنا تھا فراق دور وہ کب ہوا نگاہوں سے دھڑکنوں میں بسا ہوا ہے فراق شام غم کے سلگتے صحرا میں اک امنڈتی ہوئی گھٹا تھا فراق امن تھا پیار تھا محبت تھا رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق فاصلے نفرتوں کے مٹ جائیں پیار ہی پیار سوچتا تھا فراق ہم سے رنج و الم کے ماروں کو کس محبت سے دیکھتا تھا فراق عشق انسانیت سے تھا اس کو ہر تعصب سے ماورا تھا فراق
darakht-suukh-gae-ruk-gae-nadii-naale-habib-jalib-ghazals
درخت سوکھ گئے رک گئے ندی نالے یہ کس نگر کو روانہ ہوئے ہیں گھر والے کہانیاں جو سناتے تھے عہد رفتہ کی نشاں وہ گردش ایام نے مٹا ڈالے میں شہر شہر پھرا ہوں اسی تمنا میں کسی کو اپنا کہوں کوئی مجھ کو اپنا لے صدا نہ دے کسی مہتاب کو اندھیروں میں لگا نہ دے یہ زمانہ زبان پر تالے کوئی کرن ہے یہاں تو کوئی کرن ہے وہاں دل و نگاہ نے کس درجہ روگ ہیں پالے ہمیں پہ ان کی نظر ہے ہمیں پہ ان کا کرم یہ اور بات یہاں اور بھی ہیں دل والے کچھ اور تجھ پہ کھلیں گی حقیقتیں جالبؔ جو ہو سکے تو کسی کا فریب بھی کھا لے
bahut-raushan-hai-shaam-e-gam-hamaarii-habib-jalib-ghazals
بہت روشن ہے شام غم ہماری کسی کی یاد ہے ہم دم ہماری غلط ہے لا تعلق ہیں چمن سے تمہارے پھول اور شبنم ہماری یہ پلکوں پر نئے آنسو نہیں ہیں ازل سے آنکھ ہے پر نم ہماری ہر اک لب پر تبسم دیکھنے کی تمنا کب ہوئی ہے کم ہماری کہی ہے ہم نے خود سے بھی بہت کم نہ پوچھو داستان غم ہماری
bhulaa-bhii-de-use-jo-baat-ho-gaii-pyaare-habib-jalib-ghazals
بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر یہ کیسی شام خرابات ہو گئی پیارے وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے
phir-kabhii-laut-kar-na-aaenge-habib-jalib-ghazals
پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں گے ہم ترا شہر چھوڑ جائیں گے دور افتادہ بستیوں میں کہیں تیری یادوں سے لو لگائیں گے شمع ماہ و نجوم گل کر کے آنسوؤں کے دیئے جلائیں گے آخری بار اک غزل سن لو آخری بار ہم سنائیں گے صورت موجۂ ہوا جالبؔ ساری دنیا کی خاک اڑائیں گے
vatan-ko-kuchh-nahiin-khatra-nizaam-e-zar-hai-khatre-men-habib-jalib-ghazals
وطن کو کچھ نہیں خطرہ نظام زر ہے خطرے میں حقیقت میں جو رہزن ہے وہی رہبر ہے خطرے میں جو بیٹھا ہے صف ماتم بچھائے مرگ ظلمت پر وہ نوحہ گر ہے خطرے میں وہ دانشور ہے خطرے میں اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے نہ تیرا گھر ہے خطرے میں نہ میرا گھر ہے خطرے میں جہاں اقبالؔ بھی نذر خط تنسیخ ہو جالبؔ وہاں تجھ کو شکایت ہے ترا جوہر ہے خطرے میں
miir-o-gaalib-bane-yagaanaa-bane-habib-jalib-ghazals
میرؔ و غالبؔ بنے یگانہؔ بنے آدمی اے خدا خدا نہ بنے موت کی دسترس میں کب سے ہیں زندگی کا کوئی بہانہ بنے اپنا شاید یہی تھا جرم اے دوست با وفا بن کے بے وفا نہ بنے ہم پہ اک اعتراض یہ بھی ہے بے نوا ہو کے بے نوا نہ بنے یہ بھی اپنا قصور کیا کم ہے کسی قاتل کے ہم نوا نہ بنے کیا گلہ سنگ دل زمانے کا آشنا ہی جب آشنا نہ بنے چھوڑ کر اس گلی کو اے جالبؔ اک حقیقت سے ہم فسانہ بنے
jhuutii-khabren-ghadne-vaale-jhuute-sher-sunaane-vaale-habib-jalib-ghazals
جھوٹی خبریں گھڑنے والے جھوٹے شعر سنانے والے لوگو صبر کہ اپنے کئے کی جلد سزا ہیں پانے والے درد آنکھوں سے بہتا ہے اور چہرہ سب کچھ کہتا ہے یہ مت لکھو وہ مت لکھو آئے بڑے سمجھانے والے خود کاٹیں گے اپنی مشکل خود پائیں گے اپنی منزل راہزنوں سے بھی بد تر ہیں راہنما کہلانے والے ان سے پیار کیا ہے ہم نے ان کی راہ میں ہم بیٹھے ہیں نا ممکن ہے جن کا ملنا اور نہیں جو آنے والے ان پر بھی ہنستی تھی دنیا آوازیں کستی تھی دنیا جالبؔ اپنی ہی صورت تھے عشق میں جاں سے جانے والے
bade-bane-the-jaalib-saahab-pite-sadak-ke-biich-habib-jalib-ghazals
بڑے بنے تھے جالبؔ صاحب پٹے سڑک کے بیچ گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ کبھی گریباں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خون ہمیں تو یوں ہی ملے سخن کے صلے سڑک کے بیچ جسم پہ جو زخموں کے نشاں ہیں اپنے تمغے ہیں ملی ہے ایسی داد وفا کی کسے سڑک کے بیچ
sher-se-shaairii-se-darte-hain-habib-jalib-ghazals
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں دہر میں آہ بے کساں کے سوا اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں داور حشر بخش دے شاید ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں ہر قدم پر ہے محتسب جالبؔ اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں
kahiin-aah-ban-ke-lab-par-tiraa-naam-aa-na-jaae-habib-jalib-ghazals
کہیں آہ بن کے لب پر ترا نام آ نہ جائے تجھے بے وفا کہوں میں وہ مقام آ نہ جائے ذرا زلف کو سنبھالو مرا دل دھڑک رہا ہے کوئی اور طائر دل تہہ دام آ نہ جائے جسے سن کے ٹوٹ جائے مرا آرزو بھرا دل تری انجمن سے مجھ کو وہ پیام آ نہ جائے وہ جو منزلوں پہ لا کر کسی ہم سفر کو لوٹیں انہیں رہزنوں میں تیرا کہیں نام آ نہ جائے اسی فکر میں ہیں غلطاں یہ نظام زر کے بندے جو تمام زندگی ہے وہ نظام آ نہ جائے یہ مہ و نجوم ہنس لیں مرے آنسوؤں پہ جالبؔ مرا ماہتاب جب تک لب بام آ نہ جائے
phir-dil-se-aa-rahii-hai-sadaa-us-galii-men-chal-habib-jalib-ghazals
پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل شاید ملے غزل کا پتا اس گلی میں چل کب سے نہیں ہوا ہے کوئی شعر کام کا یہ شعر کی نہیں ہے فضا اس گلی میں چل وہ بام و در وہ لوگ وہ رسوائیوں کے زخم ہیں سب کے سب عزیز جدا اس گلی میں چل اس پھول کے بغیر بہت جی اداس ہے مجھ کو بھی ساتھ لے کے صبا اس گلی میں چل دنیا تو چاہتی ہے یوں ہی فاصلے رہیں دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل بے نور و بے اثر ہے یہاں کی صدائے ساز تھا اس سکوت میں بھی مزا اس گلی میں چل جالبؔ پکارتی ہیں وہ شعلہ نوائیاں یہ سرد رت یہ سرد ہوا اس گلی میں چل
ye-aur-baat-terii-galii-men-na-aaen-ham-habib-jalib-ghazals-3
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم شاید بہ قید زیست یہ ساعت نہ آ سکے تم داستان شوق سنو اور سنائیں ہم بے نور ہو چکی ہے بہت شہر کی فضا تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے جالبؔ چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
yuun-vo-zulmat-se-rahaa-dast-o-garebaan-yaaro-habib-jalib-ghazals
یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو اس سے لرزاں تھے بہت شب کے نگہباں یارو اس نے ہر گام دیا حوصلۂ تازہ ہمیں وہ نہ اک پل بھی رہا ہم سے گریزاں یارو اس نے مانی نہ کبھی تیرگیٔ شب سے شکست دل اندھیروں میں رہا اس کا فروزاں یارو اس کو ہر حال میں جینے کی ادا آتی تھی وہ نہ حالات سے ہوتا تھا پریشاں یارو اس نے باطل سے نہ تا زیست کیا سمجھوتہ دہر میں اس سا کہاں صاحب ایماں یارو اس کو تھی کشمکش دیر و حرم سے نفرت اس سا ہندو نہ کوئی اس سا مسلماں یارو اس نے سلطانیٔ جمہور کے نغمے لکھے روح شاہوں کی رہی اس سے پریشاں یارو اپنے اشعار کی شمعوں سے اجالا کر کے کر گیا شب کا سفر کتنا وہ آساں یارو اس کے گیتوں سے زمانے کو سنواریں یارو روح ساحرؔ کو اگر کرنا ہے شاداں یارو
dil-kii-baat-labon-par-laa-kar-ab-tak-ham-dukh-sahte-hain-habib-jalib-ghazals
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

Urdu Poetry Dataset

Welcome to the Urdu Poetry Dataset! This dataset is a collection of Urdu poems where each entry includes two columns:

  • Title: The title of the poem.
  • Poem: The full text of the poem.

This dataset is ideal for natural language processing tasks such as text generation, language modeling, or cultural studies in computational linguistics.


Dataset Overview

The Urdu Poetry Dataset comprises a diverse collection of Urdu poems, capturing the rich heritage and literary nuances of the Urdu language. Each record in the dataset consists of:

  • Poem Title: A brief title that reflects the theme or subject of the poem.
  • Poem Text: The actual content of the poem.

The dataset is structured in a tabular format, making it straightforward to load and manipulate with popular data processing libraries.


Data Format

The dataset is provided in a standard tabular format (e.g., CSV or JSON). Each entry includes the following columns:

  • title (string): The title of the poem.
  • poem (string): The full text of the poem.

Example (CSV format):

title,poem
"دل کی کتاب","یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے..."
"پھولوں کا سلسلہ","خوشبوؤں کی محفل میں، ایک پھول داستان کہتا ہے..."
How to Load the Dataset
You can easily load the dataset using the Hugging Face Datasets library. Below is an example using Python:

python
Copy
Edit
from datasets import load_dataset

# Replace 'your-username/urdu-poetry-dataset' with the actual repository name on Hugging Face Hub
dataset = load_dataset("your-username/urdu-poetry-dataset")

# Accessing the train split (if applicable, otherwise adjust accordingly)
print(dataset['train'][0])
Note: Ensure that you have installed the datasets library with:

bash
Copy
Edit
pip install datasets
Intended Use Cases
Text Generation: Train language models to generate Urdu poetry.
Stylistic Analysis: Analyze poetic styles and structures in Urdu literature.
Cultural Studies: Explore themes and cultural nuances present in Urdu poetry.
Machine Translation: Use as a resource for translating poetic texts between languages.
License
This dataset is distributed under the MIT License. See the LICENSE file for more details.


Contributing
Contributions are welcome! If you have additional data, improvements, or suggestions, please open an issue or submit a pull request on the GitHub repository.

Citation
If you use this dataset in your research, please consider citing it as follows:

bibtex
Copy
Edit
@dataset-ReySajju742/English-Urdu-Dataset,
  author       = Sajjad Rasool,
  title        = English Transliteration (Roman Urdu) of Urdu Poetry Dataset,
  year         = 2025,
  publisher    = ReySajju742,
  url          = https://huggingface.co/datasets/ReySajju742/English-Urdu-Dataset,
}
Contact
For any questions, suggestions, or issues, please contact sajjjad.rasool@gmail.com
Downloads last month
0